Woh Sab Kiya Tha Teen Auratien Teen Kahaniyan Urdu Story Inpage

جس عورت نے مجھے پالا، میں اس کو اپنی ماں سمجھتی تھی۔ یہ تو بہت بعد میں پتا چلا کہ وہ عورت میری ماں ہے اور نہ اس کا گھر میراگھر ہے۔ کوئی اور ہی تھی وہ کم نصیب جس نے مجھے جنم دیا اور دنیا کے خوف سے اپنی ممتا کے گلے پر چھری پھیر کر ایک مسجد کے قریب، منہ اندھیرے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ سردیوں کے دن تھے لیکن پھینکنے والوں نے مجھ کو گرم کپڑے پہنا کر اور اچھی طرح چھوٹے سے نرم کمبل میں لپیٹ کر ایک ٹوکری میں رکھا تھا، یوں وہ مجھے خُدا کے سپرد کر کے روپوش ہو گئے۔ میں تمام رات مسجد سے ملحقہ میدان میں پڑی رہی، شاید میری نگہبانی پر خُدا نے فرشتوں کو مقرر کر دیا ہو کہ تمام رات کوئی کتا، بلی یا دوسرا جانور نہیں آ پایا۔ کسی نے مجھ کو نقصان نہ پہنچایا۔ میں ٹوکری میں گرم کپڑوں میں لپٹی ہوئی سوئی رہی ۔ فجر کی اذان کے وقت جب نمازیوں کا ادھر سے گزر ہوا۔ انہوں نے میرے رونے کی آواز سُنی اور ٹوکری کو اٹھالیا۔ تبھی میں نے چلا چلا کر اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کر دیا۔ ایک خُدا ترس بندے نے جو بے اولاد تھا، مجھے اُٹھایا اور اپنی بیوی کے سپرد کر دیا، تبھی سے میں عالمہ خاتون کی آغوش میں پرورش پانے لگی۔ جب میں نے ہوش سنبھالا خود کو محبت کرنے والی ماں اور شفیق باپ کے زیر سایہ پایا۔ انہی کو اپنے والدین اور ان کے گھر کو اپنا گھر سمجھا۔ عالمہ خاتون نیک اور عبادت گزار تھیں۔ مجھ کو کبھی نہ جھڑکا اور نہ کوئی تکلیف دی۔ میرا بے حد خیال رکھتیں۔ وہ مجھے کو پا کر خوش تھیں حالانکہ میں کسی نادان خطاکار کی بھول تھی۔ پالنے والے بے شک ایسی باتیں بھول جائیں مگر سماج نہیں بھلا پاتا۔ لوگوں کو یاد تھا کہ میں کوڑے کے ڈھیر کا پھول ہوں، وہ اس گھر کی عزت کی خاطر چپ تھے، کیونکہ میرے والد ایک عالم بزرگ اور معزز آدمی تھے۔ وہ محلے والوں کے ہمدرد اور امانت دار تھے۔ ان کی اس نیکی کو سب نے دل سے قبول کر لیا تھا محلے کی عور تیں مجھے ان کی بیٹی کے طور پر قبول کر چکی تھیں۔ جب میں چار سال کی ہو گئی تو امی جان نے خود کلام پاک کا درس دینا شروع کر دیا۔ میں کافی ذہین تھی ، دو سال میں ہی کلام پاک ختم کر لیا، تب انہوں نے مجھ کو مدرسے میں داخل کروادیا۔ شروع میں تو آبا جان خود مجھ کو اسکول چھوڑنے جاتے بعد میں رستے کی شناسائی پکی ہو گئی۔ تیسری جماعت میں خود ہی جانے لگی۔
راستے میں آنے والے میدان کو اکثر دوڑ کر عبور کر لیا کرتی کہ دیر نہ ہو جائے۔ ایک دن میدان سے گزر رہی تھی کہ کچھ رنگین چیزیں دیکھیں۔ یہ کھلونے تھے اور مٹی پر پڑے ہوئے تھے۔ نئے اور خوبصورت کھلونے دیکھ کر جی للچایا اور میں نے ادھر اُدھر دیکھا۔ وہاں کوئی ہوتا تو نظر آتا، بالکل ویران جگہ تھی۔ جب کوئی مالک ان کھلونوں کا مجھ کو نظر نہ آیا ان کو بستے میں چھپا لیا۔ اس روز تمام وقت کلاس میں جی نہ لگا۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد بستے میں جھانکتی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ اُڑ کر گھر پہنچوں اور کھلونوں سے کھیلوں۔ یہ اتنے خوبصورت تھے ، جیسے ابھی ابھی خریدے گئے ہوں۔ خُدا خدا کر کے چھٹی کی گھنٹی بجی۔ میں نے ربیعہ کا بھی انتظار نہ کیا۔ چھٹی کے وقت وہ اکثر میرے ساتھ ہی گھر آتی تھی۔ یہ لڑکی ہمارے محلے میں رہتی تھی اور میری ہم جماعت تھی۔ آج مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ اسکول سے نکلتے ہی بیگ گلے میں ڈال کر دوڑ پڑی اور روز سے چند منٹ پہلے گھر آ گئی۔ آتے ہی کمرے میں چلی گئی۔ اپنے بستر پر میں نے بستے کو الٹ دیا۔ کتابیں چن کر ایک طرف کر دیں اور کھلونوں سے کھیلنے میں محو ہو گئی۔ امی کا معمول تھا۔ جونہی میں گھر آتی وہ میرے پیچھے آجاتی تھیں۔ سب سے پہلے یونی فارم تبدیل کرنے کو کہتیں ، بعد میں کھانے کا پوچھتیں۔ وہ حسب معمول کچن سے میرے کمرے میں آگئیں۔ مجھ کو بستر پر بیٹھے دیکھ کر بولیں۔ صادقہ کتنی بار تم سے کہا ہے کہ سب سے پہلے کپڑے بدل کر ہاتھ منہ دھو لیا کرو۔ تم پھر بستر پر چڑھ بیٹھی ہو۔ یہ کہتے ہوئے ان کی نظر میرے ہاتھوں میں پکڑے کھلونوں پر پڑی اور وہ حیرت سے بولیں۔ یہ کیا ہے ؟ کس نے دیئے ہیں یہ کھلونے ؟ کسی نے نہیں امی جان ! مجھے یہ میدان میں پڑے ہوئے ملے ہیں۔ آخر تو کسی بچے ہی کے ہوں گے ، کیوں اٹھالائی ہو ؟ کتنی بری بات ہے ، تم نے کسی دوسرے کی چیز کو ہاتھ لگایا ہے ، جاکر ان کو وہیں پھینک آئو ، جہاں سے اُٹھا لائی ہو۔ ٹھیک ہے آمی۔ میں نے کہا۔ کھیل تو لوں، ابو آجائیں،ان کے ساتھ جا کر اسی جگہ پھینک آئوں گی۔
امی چُپ ہو گئیں۔ انہوں نے کچن میں جا کر کھانا بنایا۔ اتنے میں آبا جان آگئے۔ ان سے میں ڈرتی تھی، تبھی کھلونے دوبارہ اسکول بیگ یعنی بستے میں رکھ دیئے اور ان کے ساتھ کھانا کھانے دُوسرے کمرے میں چلی گئی تاہم اس روز میرا دھیان کھلونوں کی طرف ہی تھا۔ جی چاہتا تھا یہ میرے ہی پاس رہیں اور میں ان کو میدان میں واپس نہ پھینکوں لیکن ماں کی ہدایت پر عمل ضروری تھا۔ انہوں نے ابھی تک آبا جان کو ان کے بارے نہیں بتایا تھا ورنہ وہ تو کھانا بھی نہ کھانے دیتے اور کہتے ، چلو، پہلے ان کو وہاں ہی پھینک آئو۔ کھانا کھاتے ہی ابا جان کے کچھ دوست آگئے ، کھلونوں والی بات بیچ میں رہ گئی اور وہ چلے گئے۔ رات کو میں ان کے ساتھ نہ کھیل پائی کیونکہ امی ابا کا ڈر تھا۔ امی نے سمجھا دیا تھا کہ اول تو پرائی شے کو چھونا نہ چاہئے تھا۔ اب اگر غلطی سے اُٹھا لائی ہو تو کل اسکول جاتے ہوئے اُسی جگہ رکھ دینا۔ دوسرے روز اسکول جاتے ہوئے میں نے ان کھلونوں کو وہاں ہی رکھ دیا جس جگہ سے اٹھایا تھا۔ آج اسکول میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ بھی میراجی نہ لگا اور میں گم صم رہی۔ گھر آئی تو سو گئی ، جیسے بہت تھکن ہو گئی ہو۔ خواب میں دیکھتی ہوں۔ ایک میری ہم عمر لڑکی میدان میں اُسی جگہ کھڑی ہے، جہاں میں کھلونے رکھ آئی تھی۔ وہ کہہ رہی ہے یہ تو میں نے تمہارے لئے رکھے تھے کیونکہ تم مجھے اچھی لگتی ہو اور میں تم کو اپنی دوست بنانا چاہتی ہوں۔ تم نے کیوں ان کو واپس کیا ہے۔ اچھا اب اگر تم کو دوں گی تو واپس نہیں کرو گی نا! وعدہ؟ ہاں وعدہ۔ میں کہتی ہوں۔ تب وہ مجھے بے حد خوبصورت کپڑے کی بنی ہوئی دو گڑیاں دکھا کر کہتی ہے۔ کل میں یہ تمہارے لئے رکھوں گی۔ تم اُٹھا لینا اور واپس نہیں کرنا۔ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔ میں بچی تھی سات آٹھ برس کی اور خواب تو پھر خواب ہوتے ہیں۔ صبح بیدار ہوئی تو کچھ پریشانی سی محسوس ہوئی، پھر میں نے خواب جان کر بھلادیا اور اسکول چلی گئی۔ اس روز تمام وقت میرا دل کلاس میں نہیں لگا۔
جب گھر لوٹ رہی تھی تو میدان میں اسی جگہ مجھ کو کپڑے کی بنی ہوئی دو خوبصورت گڑیاں زمین پر پڑی ملیں، جیسی میں نے خواب میں دیکھی تھیں۔ میں نے بلا خوف ان کو اٹھالیا، تبھی ماں کی بات یاد آگئی کہ پرائی چیز نہیں اٹھاتے۔ ان خیال کے آتے ہی پریشان ہو گئی۔ سوچا، اگر ان گڑیوں کو گھر لے جائوں گی تو امی سے کیا کہوں گی۔ وہ اتنی خوبصورت گڑیاں تھیں ، دل نہ کرتا تھا ان کو وہاں چھوڑ دوں۔ خواب بھی یاد تھا۔ اس لڑکی نے کہا تھا کہ یہ گڑیاں تمہارے لئے ہیں ، تم ان کو ضرور اٹھانا۔ تبھی نہ چاہتے ہوئے بھی، جانے کس طاقت کے زیراثر میں نے گڑیاں اٹھا کربستے میں رکھ لیں۔ گھر آکر امی کو کچھ نہ بتایا اور اسکول بیگ کو چھپا دیا۔ اگلے دن چھٹی تھی۔ دوپہر کو کام کاج سے فارغ ہو کر آمی پڑوس میں چلی گئیں ، آبا گھر پر نہیں تھے۔ اب موقعہ تھا، میں نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور بیگ سے گڑیاں نکال لیں۔ کیا بتائوں کہ وہ کس قدر حسین تھیں؟ آج بھی ان کا حسن آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ ان کے چمکدار اور ریشمی کپڑے ، جیسے ان کو کسی انسانی ہاتھ نے نہ بنایا ہو۔ ایک گھنٹے تک تقریباً ان کے ساتھ کھیلنے میں محو رہی۔ اس دوران میں ان کے ساتھ یوں گفتگو کر رہی تھی جیسے وہ میری سہیلیاں ہوں۔ جونہی میں نے بیرونی دروازہ کھلنے کی آواز سنی، سمجھی کہ ماں آ گئی ہے۔ ان کو دوبارہ بستے میں چھپا دیا اس بیگ کو الماری کے پیچھے پوشیدہ جگہ رکھ دیا۔ امی نے آتے ہی پوچھا۔ اسکول کا سبق یاد کر لیا ؟ جی، ماں جی۔ میں نے سعادت مندی سے جواب دیا۔ ان کو وہ کاپی بھی کھول کر دکھائی جس میں کام درج تھا۔ وہ مطمئن ہو گئیں۔ تمام دن ، اس روز بہت خوش رہی جیسے میرے من میں لڈو پھوٹ رہے ہوں۔ تصور میں وہی گڑیاں بسی ہوئی تھیں۔ سوچ لیا تھا کہ آج رات ان کے ساتھ کھیل لوں گی اور صبح ان کو اسی جگہ رکھ دوں گی۔ اس طرح آمی نہ ان کو دیکھ پائیں گی اور نہ ہی خفا ہوں گی۔
رات کو امی آبا کے سو جانے سے قبل میں خود سو گئی یوں میرا گڑیوں سے دوبارہ کھیلنے کا ارمان باقی رہ گیا۔ اگلے دن اسکول جاتے ہوئے میدان میں اسی جگہ پر ٹھہر کر میں ان گڑیوں کو واپس رکھنا چاہتی تھی کہ رستے میں ربیعہ مل گئی وہ میرے ساتھ ہولی۔ میں نے ربیعہ سے کہا۔ تم بھی کیا یاد کرو گی ۔ تم کو ایک چیز دکھاتی ہوں۔ وہ کہنے لگی۔ کیا چیز ہے؟ میں اس کو بستے میں سے گڑیاں نکال کر دکھانے ہی والی تھی کہ عقل جاگ گئی۔ یہ اپنی امی کو بتائے گی اور وہ یقیناً میری ماں کو بتا دیں گی۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے بات ادھر ادھر کر دی۔ دکھائو تو ، کیا دکھا رہی تھیں ؟ کچھ نہیں ربیعہ میں یونہی مذاق کر رہی تھی۔ یوں ہم اسکول کی جانب چل دیئے۔ سوچتی جاتی تھی کہ واپسی میں ان گڑیوں کو میدان میں رکھ دوں گی اور ربیعہ سے پہلے ہی بھاگ کر میدان کی طرف آجائوں گی۔ اس دن کلاس میں جب بھی میں نے کوئی کتاب یا کاپی نکالی میرے ہاتھ سے گڑیاں مس ہوتی رہیں۔ وہ بستے میں موجود تھیں۔ چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی بھاگ کھڑی ہوئی۔ ربیعہ اور دوسری سب بچیوں سے بھی پہلے میدان میں اس جگہ پہنچ چکی تھی، جہاں سے گڑیاں اٹھائی تھیں۔ میں نے بستے میں ہاتھ ڈالا، گڑیاں غائب تھیں۔ بے حد قلق ہوا، سمجھ گئی، یہ کسی چور لڑکی کی کارستانی ہے۔ سوچنے لگی، اپنے بستے کو ایک لمحے خود سے جدا نہ کیا تھا، کیونکر یہ کسی نے چرا لی ہوں گی۔ مجھ کو ان کے کھو جانے کا صدمہ تھا تا ہم عقل اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھی۔ میں تھی بھی چھوٹی سی، اگر یہ سلسلہ یہیں پر ختم ہو جاتا شاید میں ان واقعات کو بھول جاتی لیکن یہ نہ ہوا۔ سلسلہ چلتارہا۔ دودن گزرے تھے کہ میدان میں اسی جگہ کچھ اور چمکتی ہوئی چیزیں دیکھیں۔ یہ کانچ کی خوبصورت گولیاں تھیں ۔ ان کو اُٹھا کر بستے میں رکھ لیا۔ اب ان کو چھپانا میرے بس میں نہ رہا تھا۔ امی جان کو گڑیوں کے غائب ہو جانے والی بات بھی بتادی۔ ان کا ماتھا ٹھنک گیا۔ بولیں۔ بیٹی ایسا کوئی تم کو ورغلانے کو کر رہا ہے۔ تم ہوشیاری سے اسکول جایا کرو اور آئندہ اکیلی مت جانا۔ امی جان میں نے خواب میں بھی ایک لڑکی کو دیکھا تھا۔ وہ کہتی تھی، یہ چیزیں میں تمہارے لئے رکھتی ہوں۔ تم اٹھا لیا کرو۔ امی کہنے لگیں۔ بیٹی اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نماز پابندی سے پڑھا کرو۔ صبح سویرے کلام پاک کی تلاوت لازمی کیا کرو اور پاک صاف رہا کرو۔
اس کے بعد وہ روز صبح سویرے جگانے لگیں۔ خود بھی نماز کے بعد کلام پاک کی تلاوت کرتی تھیں، مجھ کو بھی ساتھ بٹھانے لگیں۔ ہر نماز کے وقت خود نماز پڑھتے ہوئے وہ اپنے ساتھ مجھے کھڑا کر لیتیں ، یوں انہوں نے مجھ کو نماز اور تلاوت کا پابند کر دیا اور مجھ پر آیات بھی دم کرنے لگیں۔ ہمارا اسکول پہلے پرائمری تھا، پھر مڈل ہو گیا۔ اب میں بھی اب باشعور ہو گئی تھی۔ ایک سال تک تو وہ مجھ کو خود چھوڑنے اور لینے جاتی تھیں، اس کے بعد میں ربیعہ کے ساتھ جانے لگی۔ امی نے اُسے تلقین کر دی کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ اسکول آئے جائے گی، میں اور وہ اکیلی نہ جائیں گی۔ میں اور ربیعہ ساتھ جاتیں، اس کے بعد مجھے پھر کبھی کوئی کھلونا رستے میں نہ ملا۔ جن دنوں میں چھٹی میں تھی ، آمی جان نے آبا سے کہا۔ صادقہ ، دیہات کے اسکول جاتی ہے۔ کیوں نہ ہم اسکو شہر کے اسکول میں داخل کروا دیں۔اب یہ محلے کی بڑی لڑکیوں کے ساتھ شہر کے اسکول جاسکتی ہے۔ شہر کا اسکول دو میل کے فاصلے پر تھا لیکن راستہ آبادی والا تھا۔ ویران جگہ سے نہیں گزرتا تھا۔ آبا جان نے اجازت دے دی۔ امی نے مجھے شہر کے اسکول میں داخل کروا دیا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ میٹرک تک تھا اور صرف لڑکیاں یہاں پڑھتی تھیں جبکہ دیہات کے سیکنڈری اسکول میں لڑکے اور لڑکیاں ساتھ پڑھتے تھے۔ میری دیکھا دیکھی ربیعہ نے بھی شہر کے اسکول میں داخلہ لے لیا۔ اب ہمارا پھر سے اچھا ساتھ بن گیا۔ جس روز آخری بار دیہات والے مدرسے میں گئی۔ اس دن ربیعہ نے چھٹی کی تھی۔ میں آج اکیلی ہی جارہی تھی۔ جب اسکول سے لوٹ رہی تھی۔ مجھ کو میدان میں اُسی جگہ اچانک آبادی نظر آئی۔ ایک محلہ بنا ہوا تھا، جہاں گلیاں تھیں اور گھر بھی تھے جبکہ پہلے یہاں آبادی کا نام و نشان نہ تھا۔ حیرت زدہ رہ گئی کہ اتنی جلدی یہ مکانات کیسے بن گئے ؟ دو تین نہیں بلکہ پوری آبادی۔ اسی ادھیڑ بن میں راستہ بدل کر جانے لگی کہ دفعتا میری ایک ہم عمر لڑکی نظر آئی۔ اس نے دوپٹے کی بکل ماری ہوئی تھی اور بہت دلکش شکل و صورت کی تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ دوپٹے کے اندر کئے ہوئے تھے۔ کہنے لگی۔ صادقہ ، تم آج اسکول چھوڑ کر جارہی ہو لیکن تمہارا میرا ساتھ نہیں چھوٹے گا کیونکہ تمہارے شہر والے اسکول کے پرلی طرف جو میدان ہے، وہاں ہمارے رشتہ دار رہتے ہیں۔ میں وہاں آتی جاتی رہتی ہوں اور تم کو پتا نہیں ہم بہت عرصے سے ادھر رہتے ہیں۔ تم روز ہی ہمارے گھر کے سامنے سے گزرا کرتی تھیں اور کبھی کبھی میں تمہارے ساتھ اسکول تک جایا کرتی تھی۔ ہاں میں کئی بار تمہارے ہمراہ اسکول سے چھٹی کے بعد گھر تک بھی گئی لیکن کبھی تمہارے گھر کے اندر نہیں گئی کیونکہ تمہاری امی سے ڈر لگتا ہے۔ وہ بہت عبادت کرتی ہیں۔ ہر وقت آیات کا ورد کرتی رہتی ہیں۔
میں حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ اس طرز سے میرے ساتھ گھل مل کر باتیں کر رہی تھی، جیسے میری سہیلی ہو۔ تب تو مجھ کو اس سے بالکل خوف محسوس نہیں ہوا۔ گمان میں بھی یہ بات نہ آئی کہ یہ کوئی اور مخلوق بھی ہو سکتی ہے، مثلاً جن ۔ وہ کہہ رہی تھی میرے گھر چلو، دیکھو وہ رہے ہمارے گھر، وہ ہے ہمارا محلہ ۔ یہاں سب ہمارے رشتہ دار رہتے ہیں اور تم تو مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔ وہ آبادی کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ جو گھر مجھے نظر آرہے تھے ، وہ تو عام گھروں جیسے ہی تھے لیکن وہاں لوگ نہیں تھے ۔ سارا محلہ خالی تھا۔ میں نے کہا۔ وہاں گھر تو ہیں لیکن لوگ نہیں ہیں۔ سب لوگ کہاں گئے ہیں؟ سب لوگ ہیں مگر وہ تم کو نظر نہیں آرہے۔ یہ آبادی مجھ سے چند گز دور تھی۔ میں تمہارے گھر نہیں جا سکتی کیونکہ مجھے دیر ہو رہی ہے۔ میرا جواب سُن کر وہ لڑکی غائب ہو گئی اور میں تیز تیز قدم اُٹھاتی گھر آگئی۔ یہ باتیں اپنی امی عالمہ خاتون کو بتلائیں۔ گرچہ وہاں مجھے ڈر نہیں لگا مگر احساس ہو رہا تھا کہ وہ آبادی انسانوں کی نہیں تھی اور وہ لڑکی بھی انسان نہیں تھی۔ امی نے ایسی باتیں ایک بار بتائی تھیں اور کہا تھا کہ اگر ویرانے میں کوئی چیز دیکھو تو آیات قرآنی پڑھنی شروع کر دینا اور ڈرنا بالکل نہیں۔ میرے آبا جان عالم دین ہر وقت تلاوت کلام پاک کرنے والے اور حافظ قرآن اور امی بھی ہر وقت کلام اللہ کا ورد کرنے والی، سو مجھ کو کبھی کسی غیر چیز نے نقصان نہیں پہنچایا بلکہ میں کبھی ڈرتی بھی نہ تھی۔ تاہم اس روز گھر تک پہنچتے پہنچتے پسینے پسینے ہو گئی تھی جاتے ہی امی سے لپٹ گئی اور ان کو سارا حال کہہ دیا۔ وہ بولیں۔ صادقہ بیٹی بس تم اس لڑکی کو بھول جائو اور اس واقعہ کا کسی سے ذکر مت کرنا۔ شاید وہاں جنوں کی کوئی آبادی ہے ، جو عام لوگوں کو نظر نہیں آتی لیکن تم پر اللہ پاک کی خاص رحمت ہے۔ تم تلاوت کرتی ہو اور فجر کی نماز پڑھ کر اسکول جاتی ہو۔ ان شاء اللہ کوئی مخلوق تم کو نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔
امی کا یہ کہنا سچ ہوا۔ مجھ کو کبھی بھی کوئی مخلوق نقصان نہ پہنچا سکی۔ میٹرک کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوا اور میں گھر بیٹھ گئی۔ اس کے بعد میرا رجحان عبادت کی طرف خود بخود زیادہ ہوتا گیا۔ مجھ میں عام نوجوان لڑکیوں جیسی بات نہ رہی۔ ہر وقت دھیان اللہ تعالی کی طرف رہنے لگا۔ نماز، روزے، تہجد کی پابندی کرتی تھی۔ میرے والدین کی تربیت کا بھی اثر تھا کہ وہ خود بھی پابند صوم و صلوۃ تھے لیکن مجھ میں یہ تبدیلی نمایاں آئی کہ زیادہ بات نہ کرتی اور کھانے پینے کی طرف بھی کم توجہ ہو گئی۔ جب کبھی آدھی رات کو آنکھ کھلتی میں میں ذکر الہی میں مشغول ہو جاتی ، یوں اللہ تعالیٰ کے ناموں کا ورد کرتے کرتے سو جاتی۔ چند دن بعد کچھ ایسے اشارے مجھ کو نظر آنے لگے۔ عام آنکھ جن کا مشاہدہ نہیں کر سکتی۔ کبھی آسمان کی طرف اچانک آنکھ اٹھتی تو دیکھتی ، کچھ لوگ گھوڑوں پر سوار ہیں، گھوڑے سفید رنگ کے ہیں ، سواروں کے لباس بھی سفید ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں سفید رنگ ہی کے جھنڈے ہیں۔ لمحہ بعد یہ نظارہ محو ہو جاتا۔ کسی سُنسان سڑک یا رستے پر عجیب شکلوں والے کالے رنگ کے جانور ویرانے کی جانب دوڑتے نظر آتے۔ یہ سب جاگتی آنکھوں سے دیکھ لیتی۔ ڈر لگتا اور نہ کسی سے ان کا تذکرہ کرتی۔ یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔ گھر میں کوئی شے موجود نہ ہوتی، مثلاً، کچن میں کھڑی سوچتی کہ ماچس نہیں ہے ، چولہا کیونکر جلائوں ؟ اچانک نئی ڈبیا ماچس کی سامنے آ پڑتی ہے۔ کبھی نمک ختم ہو جاتا اور منگوانے میں تاخیر ہو جاتی، خالی ڈبے میں جھانکتی اسے رکھ دیتی۔ ڈھکن لگاتے ہی وہ اچانک بھاری ہو جاتا۔ دوبارہ کھول کر دیکھتی سفید گلابی نمک صاف ستھرا چمکتا ہوا، اس میں بھرا ہوتا۔ یہ نمک کہاں سے آگیا؟ ابھی تو آبا جان سودا لینے بازار گئے ہوئے ہیں۔ یو نہی کئی بار جب کسی شے کی چاہ کی اس کو سامنے پایا۔ پرس میں ہاتھ ڈالا کہ اس میں تو روپے ہیں نہیں پھر کیا ڈھونڈنے کو ٹول رہی ہوں، تبھی نئے کڑ کڑاتے نوٹوں سے انگلیاں مس ہو جاتیں۔ جیسے ابھی ابھی کسی نے نئے براق نوٹ رکھ دیئے ہوں۔ یہ سلسلہ میرے ساتھ کئی برس رہا۔ امی کو بھی نہیں بتایا، چپ رہتی تھی۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کوئی اور بھی میرے ساتھ رہتا ہے۔ ساتھ چلتا ہے مگر میں اس کو دیکھ نہیں سکتی۔ یوں بھی ہوا کہ آگے پیچھے کہیں دور اگلے گھر ، اگلے محلے یا اگلے گائوں میں کوئی جاننے والا رشتہ دار، سہیلیاں یا امی ابا آپس میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں اور میں یہاں سے کوسوں دور ، اپنے کمرے میں بیٹھی ، ان کی سب باتیں سُن پار ہی ہوں۔ وہ جب کبھی مجھ سے ملتے ، کافی دن بعد یا جلد میں ان سے پوچھتی۔ فلاں فلاں وقت تم نے یہ باتیں کی تھیں نا؟ وہ چونک کر کہتے۔ ہاں کی تھیں لیکن تمہیں کس نے بتایا ہے۔ میں نے خود سُن لی تھیں، کسی نے نہیں بتائیں۔ میں جواب دیتی، جیسے ریڈیو آن کرتے ہی سینکڑوں میل دور کی آواز کی لہروں کو پکڑ کر سُنا جا سکتا ہے ایسے ہی اللہ نے میرے کانوں میں بھی پیدائشی طور پر کوئی خفیہ آلہ لگا دیا ہو گا جودور کی لہروں کو پکڑ کر مجھے آواز میں سُنا دیتا ہے۔