Doghli Muhabbat Teen Auratien Teen Kahaniyan Urdu Story Inpage

ان دنوں میں فرسٹ ایئر میں تھی۔ میری کزن کی شادی تھی۔ میں ان کے گھر کچھ دن پہلے چلی گئی۔ کزن کی چھوٹی بہن جبیں میری گہری دوست بن گئی۔ شادی کا گھر تھا، ہم سب کسی نہ کسی کام میں الجھے ہوئے تھے ، جبیں کا بھائی راجا بھی ادھر ادھر مصروف پھر رہا تھا۔ اپنے اخلاق کی وجہ سے وہ مجھے اچھا لگنے لگا کیونکہ وہ بہت باتمیز اور حد میں رہنے والا لڑکا تھا۔ میں اس کو بہانے بہانے سے دیکھتی ، اگر وہ مجھ کو دیکھ لیتا تو منہ دوسری طرف پھیر لیتی۔ شادی سے ایک روز قبل، یہ مغرب سے ذرا پہلے کا وقت تھا۔ جبیں نے کہا۔ چھت پر کمرے میں ، میں نے ڈھولک رکھی ہے، تم ذرا جا کر لے آئو ، رات کو گیت گائیں گے۔ میں بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ آخری سیڑھی پر اندھیرا تھا۔ میں کسی سے زور سے ٹکراگئی۔ اگر میں اس کو اور وہ مجھے تھام نہ لیتے تو دونوں ہی گر جاتے۔ پہلے تو ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ کیا ہوا ہے کیونکہ دونوں ہی تیزی میں تھے اور یہ طوفانی ٹکر تھی پھر ذرا ہوش آیا تو دیکھا، را جا مجھے تھامے کھڑا تھا۔ اگلے ہی لمحے میں تیزی سے پلٹ گئی۔ خوف سے میرا سانس اکھٹر گیا تھا۔ میں نے بہانہ کیا کہ سیڑھی پر بلی میرے پیروں میں آگئی ، میں ڈر گئی ، اس لئے ڈھولک نہیں لائی۔ یہ سُن کر سب لڑکیاں میرا مذاق اڑانے لگیں کہ سیڑھی میں بلی ہی تھی نا! کوئی جن تو نہ تھا۔ اب میں انہیں کیا بتاتی۔ شادی ختم ہو گئی ، ہم گھر واپس آگئے مگر اس واقعے نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔ ایک دن فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون اُٹھایا۔ راجا تھا، وہ اس رات سیڑھی والے واقعے پر معذرت کرنے لگا۔ میں نے کہا۔ اس میں معذرت کی کیا بات ہے ؟ اگر تم مجھے تھام نہ لیتے تو میں سیڑھی سے لڑھک کر نیچے جا گرتی اور شاید میرا سر پھٹ جاتا۔ شکر کہ تم وہاں تھے ، مجھے گرنے سے بچا لیا ورنہ خبر نہیں کتنی چوٹ آتی۔ کہنے لگا۔ چلو خیر جو ہوا اتفاق سے ہو گیا، اب اس بات کو کیا دہرانا۔ میں نے تو یہ پوچھنے کے لئے فون کیا تھا کہ اگر میں جبیں کو لے کر تمہارے گھر آ جائوں تو کیا تم ہمارے ساتھ ہمارے گھرآ جائو گی۔ اگر امی نے اجازت دی تو ۔ میں نے جواب دیا۔ اگلے دن جبیں اور راجا ہمارے گھر آگئے۔ جبیں نے امی سے منت سماجت کی اور میں ان کے ساتھ ان کے گھر گئی۔ گاڑی راجا چلا رہا تھا۔ میں اور جبیں کار کی پچھلی سیٹوں پر بیٹھے تھے، راجا نے شیشہ اس طرح سیٹ کر لیا تھا کہ بار بار ہم کو آئینے میں دیکھ سکتا تھا۔ میں ایک روز ان کے گھر مہمان رہی، انہوں نے میری بہت زیادہ خاطر مدارات کی۔ گھر آکر یہی ایک بات سوچتی رہتی کہ آخر ان لوگوں نے کیوں میری اس قدر خاطر تواضع کی ہے ؟ شادی میں اور بھی تو رشتہ دار لڑکیاں آئی تھیں، ان کو تو لفٹ نہیں کرائی۔ مجھ میں ایسی کیا خاص بات ہے۔ انہی دنوں جنہیں نے مجھے فون کیا اور کہنے لگی پھر کب تم کو لینے آئیں ؟ کیوں خیر تو ہے؟ کیا روز روز مجھے لینے آئو گی ؟ راجا بھیا کہتے ہیں میں حنا سے شادی کروں گا۔ ہمارے گھر والے بھی رضامند ہیں لیکن تمہیں دو چار بار گھر بلانا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تم ہمارے گھر دو چار بارآؤ گی تو تمہاری عادات کا ان کو اندازہ ہو جائے گا۔ امی کا یہ خیال ہے کہ رشتے کی بات چلانے سے پہلے ایک دوسرے کے گھر آنے جانے سے انسیت بڑھتی ہے اور فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ کیا امی روز روز مجھے تمہارے یہاں آنے دیں گی ؟ خیر اس کے بعد کچھ دیر ہم نے دھر اُدھر کی باتیں کیں۔ ہم نے راجا کے بارے مزید کوئی بات نہ کی مگر میں خوش ضرور ہو گئی کہ یہ لوگ را جا کے لئے میرا رشتہ لینا چاہتے ہیں اور خود را جا کی بھی یہ خواہش ہے۔ اب وہ میرے حواسوں پر چھانے لگا۔ عید آئی تو جبیں نے مجھے عید کارڈ بھیجا۔ اس لفافے میں ایک اور بھی کارڈ تھا – میں سمجھ گئی کہ یہ راجا کی طرف سے ہے۔ سوچا بھی نہ تھا خوشیاں اتنی جلدی مل سکتی ہیں۔ اس کے بعد فون پر باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ کبھی میں فون اٹھاتی تو راجا ہوتا، کبھی جبیں فون کرتی تو میرا بھائی ذ کی گھر پر ہوتا تو وہ اٹھا لیتا، تب جبیں ، ذکی سے دو چار باتیں کر لیتی۔ اب مجھے راجا سے ملنے کی چاہ رہنے لگی۔ ہم ملتے بھی جبیں کی معرفت تھے ، یعنی وہی میرے پاس آنے کا پروگرام بناتی، لیکن میرا بھائی ذ کی میر اساتھ نہ دیتا۔ تب مجھ کو اس کی بڑی منت سماجت کرنا پڑتی، تو کہیں جا کر وہ مجھے جبیں کے گھر لے جانے پر راضی ہوتا۔ ہمارے گھر والے یہ سمجھتے تھے کہ ہم دونوں سہیلیاں ایک دوسرے سے ملنے جاتی ہیں جبکہ میں جبیں کے گھر صرف راجا کے لئے جاتی تھی۔ پہلے پہل ذکی مجھے باتیں سُنا دیتا کہ کیوں جبیں کے گھر جاتی ہو ؟ میں کوئی فالتو نہیں کہ روز روز تم کو ان کے گھر لے جائوں مگر بعد میں وہ بھی نرم رویہ اختیار کرتا گیا۔ اب جب کبھی مجھے جبیں کے گھر جانا ہوتا، ذ کی کہتا چلو میں تم کو لے چلتا ہوں ۔ پھر پتا نہیں کیوں تقدیر کو میری خوشی اچھی نہ لگی کہ راجا آہستہ آہستہ بدلنے لگا۔ وہ مجھ سے اور میرے بھائی سے کھینچ گیا، جس کی وجہ سے میری پڑھائی بھی متاثر ہونے لگی۔ جبیں سے پوچھا تو وہ بولی۔ اصل بات یہ ہے کہ راجا بھائی کو تمہارے بھائی کا ہمارے گھر آنا جانا اچھا نہیں لگتا، کیونکہ اس نے فون پر مجھے ذکی سے باتیں کرتے سُن لیا ہے۔ اس کو شک ہو گیا ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے میں دلچسپی رکھتے ہیں تبھی وہ اب مجھ سے بھی اکھڑا اکھڑا رہتا ہے۔ میں نے جبیں سے پوچھا۔ کیا یہ راجا کا محض شک ہے یا اس بات میں کچھ حقیقت بھی ہے؟ وہ بولی۔ جیسے تمہیں راجا اچھا لگتا ہے، اسی طرح مجھے تمہارا بھائی ذکی اچھا لگتا ہے، ہم بھی آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ تمہیں اعتراض ہے کوئی؟ میں نے اُسے سمجھایا کہ تم تو بچپن سے اپنے کزن سے منسوب ہو اور ثمر سے تمہاری نسبت بھی طے ہے ، میرے بھائی کا خیال چھوڑ دو۔ وہ کہنے لگی۔ میں ذکی کا خیال دل سے نہیں نکال سکتی۔ یہ فیصلہ میں نے سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ اگر تم میرے بھائی کو پسند کرسکتی ہو تو میں تمہارے بھائی کو کیوں پسند نہیں کر سکتی؟ ایک دن راجا نے جبیں کو ذکی سے فون پر باتیں کرتے ہوئے سن لیا، بس پھر کیا تھا، اس نے جبیں کو بہت یارا۔ شاید وہ اپنے مستقبل کے بارے باتیں کر رہے تھے جنہیں اس کے بھائی نے سُن لیا تھا جبکہ جبیں کی منگنی ہو چکی تھی۔ بہرحال اس کے بعد اس کے گھر والے ہمارے گھر والوں کے خلاف ہو گئے ، یہاں تک کہ راجا بھی مجھ سے نفرت کرنے لگا۔ وہ سمجھا، جس طرح اس کی بہن نے ہمیں قریب لانے میں کردار ادا کیا ہے ، اسی طرح میں نے اس کی بہن اور اپنے بھائی کو قریب لانے میں کردار ادا کیا ہے، ایسا حالا نکہ ہرگز نہ تھا۔ مجھے تو جبیں اور ذکی کےبیچ پسندیدگی کا علم تک نہ تھا۔ کوئی بھلا کسی کو اس امر پر مجبور کر سکتا ہے کہ تم فلاں کو پسند کرو یا اس سے محبت کرو۔ راجا کو مگر یقین نہ آیا۔ اس نے مجھ پر شک کیا اور مجھ سے ناتا توڑ لیا۔ میرے تحفے جلا ڈالے اور میرے خط خاندان بھر کو دکھانے لگا۔ اس کے اندر ایسی تبدیلی آگئی کہ جس کا میں تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔ وہ جو مجھ سے پیار کرتا تھا، جب اچھا تھا تو بہت اچھا تھا- اور اب بُرا بنا تو بہت بُرا بن گیا۔ میں ان دنوں کو یاد کر کے رو دیتی تھی جب وہ اپنی بہن سے منتیں کرتا تھا کہ حنا کے گھر چلو ہم اسے لے آتے ہیں۔ مجھے سمجھاتا تھا کہ میری ماں کے سامنے اس طرح بات کرنا، اس طرح رہنا ہے ، دوپٹہ طریقے سے سر پر اوڑھ کررکھنا۔ ان کو یہ ، یہ باتیں پسند ہیں، وہی کرنا اور یہ باتیں ناپسند ہیں بھول کر بھی اونچی آواز میں بات نہ کرنا، ان کے ساتھ کچن میں جاکر کام میں مدد کرنا تا کہ وہ تم کو مجھ سے بیاہنے پر خوشی خوشی راضی ہو جائیں۔ میری بہنوں ، ابا جی، بھائیوں ، ہر کسی کا خیال رکھنا کہ ان میں سے کوئی ہماری راہ میں نہ آ ئے۔ یہ وہی تھا کہ جو اب ہمارے سارے خاندان سے متنفر ہو گیا تھا۔ ذکی کو تو وہ گولی سے اڑا دینا چاہتا تھا۔ میں ان دنوں کو یاد کر کے روتی تھی جب وہ مجھ کو قسمیں کھا کر یقین دلاتا تھا کہ میں کبھی نہ بدلوں گا، ہمیشہ تم سے محبت کرتا رہوں گا، مجھ پر بھروسا رکھو۔ میں تمہارے لئے ایک بہت خوبصورت گھر بنائوں گا۔ ہم اس کو سجائیں گے ، خود محنت کروں گا، خوب کمائوں گا، تم کو ساری دنیا کی سیر کرائوں گا۔ کیسے کیسے خواب تھے ہمارے، جن کے لئے وہ اپنے والدین کو راضی کرنے میں لگا ہوا تھا۔ میں کہتی تھی کہ تم اتنا نہ اپنے ماں باپ کو مجبور کرنا کہ وہ تم ہی سے ناراض ہو جائیں۔ وہ مجھ سے ناراض نہیں ہیں۔ ہم نے محبت کی ہے اور ہم شادی کرنا چاہتے ہیں اور یہ کوئی جرم نہیں ہے، یہ تو ہمارا حق ہے اور میرے والدین اتنے سمجھ دار ہیں کہ وہ اولاد کے اس حق کو تسلیم کرنے پر راضی ہیں۔ راجا کی یہ باتیں میرا دل بڑھاتی تھیں، کیونکہ میرے ماں باپ ان کے قریبی رشتہ دار تھے ، وہ بھی دل سے چاہ رہے تھے کہ راجا کے والدین میرا رشتہ مانگ لیں تو وہ انکار نہیں کریں گے۔ کیا خبر تھی کہ سب کچھ اتنی جلدی چوپٹ ہو جائے گا، خوشیاں ہمارے قدموں کو چھو کر لوٹ جائیں گی۔ پتا نہیں جبیں کو میرے بھائی سے محبت کی کیا سو جھی تھی، جس کی وجہ سے میری محبت کا چمن نفرت کی آگ میں جل گیا۔ اب تو را جا بالکل بدل گیا تھا۔ وہ مجھے روتا دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیتا تھا۔ ایسے میں، میں کیا اسے مناتی، کیا دل کا حال کہتی اور کیا شکوے شکایات کرتی یا اس کی سنتی۔ اس نے جبیں کو سختی سے روک دیا کہ ہمارے گھر آنا تو کجا وہ فون پر بھی مجھ سے بات نہ کرے گی۔ اس نے ہم سے سارے رابطے ختم کر دیئے اور میرے بھائی کے لئے اپنے دل میں بغض ہی نہیں دشمنی پال لی۔ وہ اب ذکی کو ذلیل کرنے کے چکر میں لگا تھا، جس کا میں تصور نہ کر سکتی تھی۔ پھر اس کے ہاتھ ذکی کا ایک خط لگ گیا جو میرے بھائی نے اس کی بہن کو لکھا تھا۔ بس پھر کیا تھا، جو لاوا اس کے اندر جمع ہو رہا تھا، پھٹ کر باہر آگیا۔ ایک دن اس نے ذکی کو میدان میں جالیا جہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ راجہ کے ہاتھ میں چھڑا تھا۔ اس نے جاتے ہی میرے ویر پر حملہ کر دیا۔ چھڑا اس کے بازو میں لگا۔ اس کے دوستوں نے مل کر راجا کو قابو کیا اور چھڑا اس سے چھین لیا۔ ذکی کے بازو میں گہرائی تک زخم آگیا، خون بہنے لگا۔ کوئی ایسی رگ کٹ گئی تھی کہ خون رکتا نہ تھا۔ دوست گاڑی میں اسے اسپتال لے گئے اور پولیس کو بھی اسی وقت فون کر دیا۔ پولیس راجا کو پکڑ کر لے گئی۔ عینی گواہ موجود تھے۔ اس پر ارادہ قتل کا سنگین مقدمہ بن گیا۔ دونوں خاندانوں میں پریشانی بڑھ گئی ، تب بزرگوں کو علم ہوا کہ ایسا کیوں ہوا۔ والدین نے جلدی سے میری شادی چچا زاد سے کرادی اور جبیں کے ماں باپ نے بھی وقت ضائع کئے بغیر اس کی شادی اس کے منگیتر کے ساتھ کردی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری لڑکیاں ہی فتنہ ہیں جن کی وجہ سے ان کے بھائی موت کے منہ میں گئے ہیں، خُدا نے ان کی زندگیاں بچالیں ورنہ حالات اس سے زیادہ بھیانک ہو سکتے تھے ، ہم سے ہی غفلت ہوئی کہ ہم نے اپنی بیٹیوں کو اتنی چھوٹ دی کہ ایک دوسرے کے گھر آنے جانے سے روکا نہیں۔ اب وہ جو بھی کہتے، حق بجانب تھا کہ ان کو اس وقت سنگین حالات کا سامنا تھا لیکن میں سوچتی تھی کہ راجا نے جو بات اپنے لئے غلط نہیں سمجھی، کسی کی بہن سے محبت کی، اس سے شادی کی کوشش کی، پیار بھرے خط بھی لکھے ، فون پر بھی مجھ سے باتیں کرتا تھا، مستقبل کے خواب دکھاتا تھا۔ وہ سب اپنے لئے تو اسے جائز لگتا، لیکن اپنی بہن کی محبت یا پسند سے شادی، اسے کلنک کا ٹیکا لگی۔ جو امر اس کے خیال میں مردوں کے لئے مردانگی کا سنگھار تھا وہ عورتوں کے لئے قابل تعزیر ٹھہرا۔ یہ کیسا تضاد تھا۔۔۔؟ ہم لڑکیاں ، جو اپنوں پر اعتبار کر لیتی ہیں، کیا اس قابل ہوتے ہیں کہ ان سے دل کا مضبوط رشتہ باندھا جائے ؟ کیا بھروسے اور محبت کے رنگ اتنے کچے ہوتے ہیں کہ ہاتھ لگانے سے اتر جاتے ہیں ؟ ذراسی رنجش آئی اور محبت ختم ہو گئی، بھروسے کے پر خچے اڑ گئے۔ را جانے میرے خط خاندان والوں کو دکھائے۔وہ زکی سے انتقام کے لیے مجھے بد نام کر رہا تھا۔ وہ اتنا کم ظرف ہو گیا ، بھول گیا کہ وہ مجھے اپنی عزت بنانے کے جتن کر رہا تھا۔ آج مجھے راجا کو کھو دینے کا غم نہیں لیکن یہ ایسے سوالات ہیں کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں ان کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔