Bay-Basi Ki Bastan Teen Auratien Teen Kahaniyan Urdu Story Inpage

اس ترقی یافتہ دور میں جبکہ انسان مریخ پر جاننے کی سوچ رہے ہیں۔ ہمارے وطن کے کسی علاقے میں ، جب اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے اور ان واقعات پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ بے شک آپ نے اپنے ملک کے بہت سے ترقی یافتہ بڑے اور چھوٹے شہر ، دیہات، قصبے اور گائوں دیکھے ہوں گے لیکن آپ نے کوہ سلیمان کے سلسلے میں آباد پہاڑی بستیاں شاید ہی دیکھی ہوں جن میں عرصہ قدیم سے بسنے والے قبائل آج بھی اپنی صدیوں پرانی روایات اور ریت پریت کے پابند ہیں۔ ان پہاڑی سلسلوں میں زیادہ تر خوبصورت اور جری بلوچ قبائل آباد ہیں اور اس علاقہ کا حقیقی طرز زندگی ہم بڑے شہروں کے باسیوں سے اوجھل ہی رہا ہے۔ تاہم ہمارا تعلق چونکہ سخی سرور شہر سے رہا، لہذا ہمارا آنا جانا مدتوں سے کوہ سلیمان کی آباد بستیوں کی جانب لگا رہتا تھا کہ جہاں میرے والدین کے قریبی رشتہ دار رہتے تھے اور وہاں ہمارا آبائی گھر بھی تھا۔ میں بھی وہاں اکثر غمی اور خوشی کے موقعوں پر جاتی رہتی تھی۔ یہ چالیس برس پرانی بات ہے۔ ان دنوں میں بارہ تیرہ سال کی تھی۔ مجھے لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ آج بھی مجھے آپا گلزار کا چہرہ ایک دچمکتے ہوئے چاند کی طرح یاد ہے۔ تب میں اپنی خالہ زاد گلزار کے ساتھ رہا کرتی تھی کیونکہ میری ماں بیمارتھیں اور والد سخی سرور میں مینجر تعینات تھے۔ یہ شہر ڈیرہ غازی خان کے قریب تھا جہاں سرکاری اسپتال میں علاج معالجہ کی خاطر میرے والد ، اماں جان کو بھی ساتھ سخی سرور لے گئے تھے اور مجھے وہ خالہ کے پاس چھوڑ تے۔ بتاتی چلوں کہ خالو میرے سگے تایا بھی تھے اور ہمارا آبائی گھر ایک ہی تھا۔ ہماری دادی جان نے مجھ کو سخی سرور والدین کے ہمراہ نہ بھیجا کہ ان کو مجھ سے بہت انسیت تھی۔ میں بھی یہاں بہت خوش تھی کہ خالہ اور گلزار مجھ سے پیار کرتی تھیں۔ مجھ کو خالہ کے پاس رہنے سے والدین کی کمی محسوس نہ ہوتی۔ ہمارا گائوں اونچائی پر تھا جہاں سر سبز درخت تھے اور موسم سرما میں برف گرتی تھی۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش مویشی پالنا اور اپنے قطعات اراضی پر بارانی فصل لگانا تھا۔ یہاں لڑکیاں مویشی چرانے اور جھرنے سے پانی بھرنے کو عار نہ جانتی تھیں۔ ایک دن میں نے محسوس کیا کہ آپا گزار کو چپ سی لگ گئی ہے۔ وہ باغوں سے آتیں تو کھانا نہ کھا تیں، گدے پر لیٹ جاتیں اور بس چھت کوتکتی تھیں۔ خالہ ان کو کھانے کے لئے آواز یں دیتی رہتی تھیں۔ یہ آثار اچھے نہ تھے۔ میں فکر مند تھی کہ وہ مجھ سے بھی پہلے کی طرح ہنستی بولتی نہ تھیں۔ چاہتی تھی کہ جو ان کے دل میں ہے وہ زبان پر آجائے۔ ایک روز ہم دونوں جھرنے پر گئے۔ واپسی پر ایک نوجوان کو دیکھا۔ مجھے لگا یہ کسی کے انتظار میں ہے۔ پہلے تومیں نے وہم جانا لیکن اچانک گلزار کی جانب نظر تھی، وہ اس نوجوان کی جانب ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھیں جیسے کوئی من چاہی صورت کو دیکھ لیتا ہے تو آنکھوں آنکھوں میں جوت جلنے لگتی ہے۔ عمر میں ان سے چھوٹی ضرور تھی مگر اتنی بھی نادان نہیں تھی۔ میں نے ان سے کہا۔ یہ کیا معاملہ ہے ؟ ضرور کوئی بات ہے۔ انہوں نے ایسے سرجھکا لیا جیسے اپنی خطا کو تسلیم کر رہی ہوں۔ جب دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا تو گھر آتے ہی میں ان کے پیچھے پڑ گئی، تب انہوں نے میری بنتی کی کہ میری بہن گوہر تم یہ بات کسی کو مت بتانا۔ اس روز سے فکر نے مجھ کو جکڑ لیا۔ دن رات ایک ہی بات سوچتی تھی۔ اگر بابا اور بھائیوں کو خبر ہو گئی تو کیا ہو گا۔ میں تایا جی کو بڑے بابا کہتی تھی۔ وہ بہت سخت مزاج تھے مگر ان سے بھی زیادہ سخت گیر تو گلزار کے بھائی تھے۔ ان کو علم ہو جاتا اگر کہ کوئی اجنبی نوجوان ان کے گھر کی لڑکیوں کے رستے میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اس کا ایسا بندوبست کر دیتے کہ وہ دوبارہ اس دنیا میں نظر نہ آسکے۔ ایک روز کمرے میں بلا کر بتایا کہ آج ہماری ایک بھیڑ کے گلے میں دھاگے سے کسی نے گھنگرو ڈالا ہے۔ کس نے؟ اس نے جس کو تم نے رستے میں کھڑا دیکھا تھا۔ ایسا کہتے ہوئےگلزار آپا کارنگ گلابی ہو گیا۔ وہ تھوڑا سا شرما رہی تھیں جبکہ آنے والے وقت کا خوف اُن کے چہرے سے نمایاں نہیں تھا۔ آپا کیا اس معاملے میں تم کو میری ضرورت ہے کیونکہ مجھے کو لگتا تھا ان کو گھر کے مردوں کا خوف تو ہے نہیں، تبھی ایسا میں نے اُن کا اعتماد حاصل کرنے کو کہا۔ میری بہن میری چالبازی کو نہ سمجھتے ہوئے خوش ہو گئی۔ ہاں تمہاری مجھے سخت ضرورت ہے کیونکہ تم پر اعتبار ہے۔ اچھا تو کہو نا۔ وہ تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد بولیں۔ بھیڑ کے گلے میں گھنگرو ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے مجھے جھرنے پر بلایا ہے۔ تم میرے ساتھ چلو گی ؟ ہاں، چلوں گی۔ میں نے جواب دیا۔ اس جگہ در خنتوں کا ایک ایسا جھنڈ تھا۔ جس میں اگر دو انسان چھپ کر بیٹھ جائیں تو آسانی سے نظر نہیں آسکتے تھے کیونکہ اس طرف دو تین بڑے بڑے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ بظاہر یہ جگہ محفوظ نظر آتی تھی لیکن محبت کرنے والوں کے لئے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہوتی۔ میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اسے اس پر خطر رستے پر تنہا سفر نہ کرنے دوں بلکہ ساتھ چلوں تا کہ کوئی اگر ادھر سے گزرے تو انہیں بر وقت خبر دے کر بد نامی سے بچالوں۔ یہ صرف بدنامی کا معاملہ نہ تھا۔ اس میں ان دونوں کا مرنا جینا چھپا ہوا تھا۔ وقت مقرر ہم قوی ہیکل پتھروں سے گھرے اس جگہ پہنچے، جو جھرنے سے چند قدم پر تھا اور جہاں درختوں کا جھنڈ تھا۔ میرا دل دھڑکنے لگا۔ وہ جانباز پہلے ہی پہنچا ہوا تھا۔ نزدیک سے پہلی بار میں نے اسے دیکھا۔ صورت سے بھلا لگتا تھا، سیرت کا خُدا کو پتا تھا۔ محبت کا جذ بہ ازلی تھا کہ وقتی، مجھے ان باتوں کی سمجھ نہ تھی۔ مجھے تو اپنی بہن سے غرض تھی جو اپنے دلی جذبات کے آگے بے بس تھی اور دوراندیشی سے محروم ہو چکی تھی۔ اب جب گلزار جھرنے پر جانے کا کہتی، مجھے اُن کے ساتھ جانا پڑتا۔ گھر سے نکلنے تک میں منع کرتی مگر وہ قدم روک نہ پاتیں، مجبورا ساتھ ہو لیتی کہ اکیلے جانے میں زیادہ خطرہ تھا ور میں ہر صورت اپنی خالہ زاد کو نقصان سے بچانا چاہتی تھی۔ رستے میں بھی کہتی جاتی۔ آپا جان اب بھی کچھ نہیں گیا، قدموں کو تھام سکتی ہو ، تھام لو۔ تمہاری اس من مانی کا انجام ٹھیک نہ ہو گا۔ بس آج جارہے ہیں سمجھو کہ آخری بار آئندہ تمہاری بات مانوں گی اور ہم نہیں جائیں گے ۔ اس نے ایسا وعدہ بہت بار کیا مگر ہر بار توڑ دیا۔ مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ اس راہ میں ایسے وعدے صرف توڑنے کے لئے ہی ہوتے ہیں۔ ایک دن آپا نے مجھے باتوں باتوں میں بتایا کہ جانباز نے مجھے شادی کا کہا ہے۔ مگر یہ کس طرح ممکن ہے ۔ ہم اپنے قبیلے سے تو باہر نہیں جا سکتے۔ اس کے لئے جان دینی پڑتی ہے۔ یہ سُن کر وہ بجھ گئیں۔ اگلے دن میری طبیعت خراب ہو گئی۔ بخار کی وجہ سے لحاف سے نکل نہ سکی۔ اونچے نیچے پہاڑی رستے پر چلنے کے قابل نہ تھی۔ گلزار کو جانے سے میں نے روکا۔ واسطے دیئے کہ اکیلی مت جائو ضرور کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ میں مشکیزہ لے کر جارہی ہوں۔ بھائی نے ہم کو مشکیزے سے پانی لانے کو منع کیا تھا۔ وہ چلی گئیں میرے منع کرنے کو خاطر میں نہ لائیں۔ آج میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا کہ میری بہن اکیلی گئی تو ضرور آج کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ وہ چلی گئی اکیلی ہی۔ آج والد اور بھائی گھر نہ تھے۔ وہ کھیتی باڑی کی خاطر کاریزوں کی طرف گئے ہوئے تھے۔ گلزار کو کسی کا ڈر نہ تھا، جانے کیسے وہ اتنی دلیر ہو گئی تھی۔ اگلے دو تین دن تک میرا بخار نہ اترا اور آپا کے سر سے اکیلے جانے کا خوف بالکل ہی ختم ہو چکا تھا۔ ان کی ہمت بڑھ گئی تھی، وہ اکیلی ہی جانے لگیں۔ شاید تقدیر ایسے ہی بُرے دنوں کی تاک میں تھی۔ اتفاق کہ ایک روز بھائی نے اسے جھرنے کی طرف اکیلے جاتے دیکھ لیا۔ ان کے جی میں کیا سمائی کہ وہ ان کے تعاقب میں لگ گئے۔ گلزار آپا تیز تیز قدموں سے جارہی تھیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے کا بھی اسے ہوش نہ رہا تھا۔ وہ اب اپنے کان بند کر چکی تھی۔ کوئی آہٹ کوئی آواز ان کو سُنائی نہ دیتی تھی۔ جونہی وہ ملاقات کی جگہ پہنچی، مشکیزہ زمین پر پھینک دیا اور پتھروں کی اوٹ کو جانے لگی۔ تبھی جانباز قدموں کی چاپ سُن کر باہر آگیا اور شکوہ کرنے لگا کہ تم نے اتنی دیر کیوں کر دی۔ ابھی وہ جواب بھی نہ دے پائی تھی کہ اس نے بڑے بھائی کو ادھر آتے دیکھ لیا۔ جانباز تو اس کو دیکھتے ہی سرپٹ بھاگا اور بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
آپا نے بھی دوڑ کر تبھی مشکیزہ اٹھالیا اور جھرنے کی طرف جانے لگی مگر بھائی سر پر پہنچ گیا۔ بھائی کے تیور اچھے نہ دیکھ کر انہوں نے مشکیزہ پھینک دیا اور گھر کی طرف دوڑ لگادی۔ شاہ رخ نے اُن کو وہاں کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ ان کے پیچھے گھر آ پہنچا اور آتے ہی بندوق کی نال سیدھی کر دی۔ آنا فانا کئی گولیاں آپا کے سینے میں اتر گئیں۔ خالہ نے یہ منظر دیکھا تو بیٹی کی سمت دوڑیں اس کے اور گولیوں کے بیچ آنے کی کوشش میں مگر وہ بیٹی کو نہ بچا سکیں۔ شاہ رخ نے ماں کو مرتی ہوئی بیٹی کے قریب پہنچنے نہیں دیا اور انہیں پکڑے رکھا۔ دوسرا بھائی جو گھر پہنچ چکا تھا اس نے ماں کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تا کہ آور کا بھی کوئی نہ سُن سکے۔ میں بندوق کی آواز پر کمرے سے باہر نکلی تو یہ منظر دیکھا کہ میری سانس رک سی گئی اور میری آنکھوں کے سامنے گلزار آپا نے تڑپتے ہوئے دم توڑ دیا۔ اسی وقت دوسرے بھائی بھی آگئے۔ سب نے مل کر لاش کو گھر کے پچھواڑے جہاں لکڑیاں ذخیرہ تھیں اور بھیڑ بکریاں رکھی جاتی تھیں ، گڑھا کھود کر دفن کر دیا اور سارے علاقے میں مشہور کر دیا کہ گلزار نالے پر کپڑے دھونے گئی تھی، پائوں پھسل جانے سے پانی میں گر کر ڈوب گئی اور اس کی لاش نہیں ملی۔ لاش ظاہر ہے کیسے ملتی۔ ایسی للاشیں جن کو پانی کے تیز بہائو سے نکالنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ یہ بہتی ہوئی کہاں سے کہاں چلتی ہیں۔ انہیں نہ کوئی تلاش کر سکتا ہے اور نہ پکڑ سکتا ہے۔ علاقے کے لوگوں نے اس خبر کو ایسے سُنا جیسے یہ کوئی معمولی بات ہو۔ وہ سمجھ دار لوگ جانتے تھے کہ ایسی خبروں کی نہ تو تشہیر کرنا چاہئے اور نہ افسوس … ان باتوں کا ذکر کرنا بھی اچھی روایات کے خلاف ہوتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے کسی خاندان کی عزت و ناموس کے نایاب موتیوں کی آب برقرار رکھنا ہوتی ہے۔ ایسے ہی ہمارے قبیلے کے ہر مرد کے خیالات تھے۔ اس روز کے بعد جانباز تو اس طرح غائب ہوا کہ اس کو پھر کسی نے نہ دیکھا۔ گلزار کے بھائیوں نے اس کو ہر ممکنہ ٹھکانے پر تلاش کیا مگر سراغ نہ ملا۔ یقیناً وہ پہاڑ سے اتر کر کسی میدانی علاقے میں چلا گیا تھا کیونکہ زندگی بچانے کا بس یہی ایک طریقہ تھا۔ اس کے پاس, اپنے علاقے سے ہمیشہ کی جلا وطنی۔ اس واقعہ نے میری خالہ کے گھر کو زندہ قبرستان بنا دیا۔ جب امی آئیں ، خالہ ان سے لپٹ کر خُوب روتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ تم اور تمہارا شوہر ادھر ہوتے تو شاید میری گلزار کو بچالیتے۔ اماں ، میں اور بابا جان ہم تین نفوس ہی ایسے تھے جن سے اس کی جان بخشی کی امید کی جاسکتی تھی لیکن گلزار کے بھائیوں نے جو رد عمل ظاہر کیا وہ تو فوری اور آنا فانا تھا، خاص طور پر شاہ رخ اور افگن کا رویہ بعد میں یقینا وہ بھی افسردہ ہوئے ہوں گے۔ کسی کو انہوں نے اتنا وقت ہی نہ دیا کہ کوئی آگے بڑھ کر ڈھال بن جاتا، گلزار کی جان بچا سکتا۔ سب کو افسوس یہ تھا کہ کم از کم بھائی اس کو کچھ کہنے سننے کا موقع تو دیتا لیکن جو قتل آج بھی غیرت کے نام پر ہوتے ہیں، سبھی جانتے ہیں کہ اس میں عورت کو اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ یہ عمل اشتعال میں اور فوری طور پر ہی سر زد ہوتا ہے۔ کم سن لڑکی جو ان جذبوں کی مالک ہوتی ہے۔ کم اندیشی اس کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے لیکن میری بہن نے پاک دامنی کو عزیز رکھا تھا، وہ پھر کیوں کر سزائے موت کی حق دار ہوئی۔ اس واقعہ کے بعد میرے والد مجھے اپنے ساتھ سخی سرور لے آئے تھے اور پھر ہم یہیں کے ہو رہے۔