Gurbat Say Nafrat Teen aurtein Teen kahaniyan

فرحانہ میرے تایا کی بیٹی تھی لیکن اس سے میرا دوستی کا ناتا تھا۔ وہ مجھے اکثر کہا کرتی تھی کہ ہم آپس میں کزن تو ہیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر دوست ہیں اور دوست ایک دوسرے کا آئینہ ہوتے ہیں۔ بس میری زندگی تمہاری دوستی کے آئینے میں ہمیشہ شفاف ہی رہے گی۔ یہ بات وہ تب کہا کرتی تھی جب تیرہ برس کی تھی۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے جب لڑکیاں عموماً اپنے سپنوں کا تخت سجاتی سنوارتی ہیں اور اس پر کسی من موہنے کو شہزادہ بنا کر بٹھا لیتی ہیں اور خود کو اس کی ملکہ تصور کرنے لگتی ہیں، لیکن فرحانہ کے ذہن میں ایسا کوئی خیال نہیں تھا۔ اس کا ذہن بہتے چشمے کی طرح صاف شفاف تھا۔ ایسے میں اس کی منگنی خالہ زادریان سے کر دی گئی۔ سو ساده دل معصوم صورت اور اچھی سوچ رہنے والی لڑکی کی معصوم سوچ میں کسی ہم سفر ساتھی کے تصور کی کھڑکی کھل گئی کیونکہ منگنی کے بعد یقینا اس کے ذہن میں شادی کا تصور بھی اجا گر ہوا۔ اس نے اب اس نہج پر خواب دیکھنے شروع کئے۔ اتفاق کہ ان ہی دنوں فرحانہ کی کلاس میں ایک نئی لڑ کی داخل ہوئی جس کا نام تبسم تھا۔ اس لڑکی سے فرحانہ کی دوستی ہو گئی۔ یہ لڑکی بہت اونچے خواب دیکھنے کی عادی تھی۔ اس نے ہی فرحانہ کے دماغ میں یہ بات ڈالی کہ تم نے کہاں غریبوں میں منگنی کر والی ہے ، ساری عمر چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو تر سو گی۔ اب بھی وقت ہے ، ریان سے شادی سے انکار کر دو۔ میری کزن اس کی باتیں سنتی اور چپ رہتی۔ ۔ تبسم سے اس کی دوستی اتنی بڑھ گئی کہ وہ فرحانہ کے گھر بھی آنے جانے لگی۔ ایک روز وہ آئی تو انفاق کہ ریان بھی آیا ہوا تھا۔ تبسم نے ریان کو دیکھا اور بر اسامنہ بنالیا۔ جب وہ چلا گیا تو اس نے فرحانہ کے خوب کان بھرے کہ تم تو بڑی بے وقوف ہو ، ایک تو غریب خالہ زاد سے منگنی کر والی اور صورت بھی نہ دیکھی۔ چلو خو بصورت ہی ہوتا تو کوئی بات تھی۔ غرض اس نے میری کزن کا دل خوب بر ا کر دیا۔ اب وہ بھی اسی نہج پر سوچنے لگی کہ جس پر تبسم اسے سوچنے پر مجبور کر رہی تھی۔ ایک دن اصرار کر کے وہ فرحانہ کے ساتھ ریان کے گھر بھی گئی۔ اسے خالہ کے گھر کارہن سہن بھی نہ بھایا۔ ظاہر ہے کہ وہ لوگ متوسط طبقے سے تھے تو رہن سہن بھی اپنی حیثیت کے مطابق رکھا ہوا تھا۔ اب وہ ہر وقت یہی کہتی کہ ریان تمہارے قابل نہیں ہے فرحانہ ۔ دیکھو تو تم کتنی خوبصورت ہو، تمہارے لئے امیر اور خوبصورت لڑکوں کی کمی نہیں ہے۔ لڑکیوں کو ایسے گھر میں شادی کرنا چاہئے جو اس کے خوابوں کے عین مطابق ہو۔ ایسے گھر کا انتخاب کریں تمہارے خوابوں اور خوشیاں جہاں پوری ہوں۔ تبسم کے یہ خیالات تو دراصل اپنے متعلق تھے لیکن وہ رفتہ رفتہ فرحانہ کو بھی فریب کی اس وادی میں لے گئی۔ یوں میر ی کزن حقیقتوں سے دور ہوتی گئی۔ اب جب میں اس سے ملتی وہ کہتی ، سارہ میں ریان سے شادی کر کے اپنی زندگی مفلسی کی مٹی میں ملانا نہیں چاہتی۔ میں سمجھاتی کہ وہ نیک لڑکا ہے۔ قابل ہے، کمائو ہے، کیا ہوا کہ ابھی چھوٹی پوسٹ پر ہے، عمر بھی تو اس کی کم ہے۔ رفتہ رفتہ ترقی کر کے بالآخر ایک روز بڑے عہدے تک پہنچ جائے گا۔ تمہارے خالورزق حلال کماتے ہیں تو دولت کی ریل پیل نہیں ہے اور وہ جس سیٹ پر ہیں اگر رشوت لینے لگیں تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ان کا اپنا گھر ہے۔ کہنے لگی۔ اس کو تم گھر کہتی ہو۔ پانچ مرلے کا بھی کوئی گھر ہوتا ہے ؟ نہ لان، نہ کھلا محمن ، اف میرا تو دم گھٹ جائے گا وہاں۔ میں سچ کہتی ہوں کہ ریان سے شادی نہیں کروں گی کیونکہ جس شریک سفر کی شخصیت میرے خیالوں میں سما گئی ہے وہ ریان نہیں کوئی اور ہے۔ کون ہے وہ؟ میں نے پوچھا۔ کہا کہ وہ کون ہے ، نہیں جانتی کیونکہ میں نے خود بھی اس کو ابھی تک نہیں دیکھا ہے۔ فرحانہ کے والد بزنس مین تھے۔ ان کا کپڑے کا کام تھا۔ وہ ہول سیل کا کام کرتے تھے ، ایک فیکٹری بھی تھی۔ میری کزن بنگلے میں رہتی تھی پھر بھی اس کے والدین کو اپنے سے کم حیثیت رشتہ داروں سے لگائو تھا اور وہ دل سے ان کا احترام کرتے تھے۔ انہوں نے بیٹی کا رشتہ اگر ریان کو دیا تھا تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی دیا تھا۔ ریان قبول صورت اور فرمانبر دار لڑکا تھا۔ مستقبل میں ترقی کے روشن امکان تھے لیکن فرحانہ تو بس اب اپنے بڑے گھر سے بھی زیادہ بڑے گھر میں جانا چاہتی تھی اور میں حیران ہوتی تھی کہ یہ اسے کیا ہو گیا ہے۔ میں نے اس کو بہت سمجھایا مگر تبسم کی دوستی اس کے سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ سو وہ میری باتوں کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ انہی دنوں ریان کی امی بتایا کے گھر آئیں۔ وہ فرحانہ کو بہت چاہتی تھیں اور اس کو ایک صابر اور شاکر لڑکی سمجھتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ آکر ان کا گھر سنوار دے گی۔ وہ ہر پل اس پر واری جاتی تھیں۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ ان کی یہ بھانجی کن ہوائوں میں پرواز کر رہی ہے۔ وہ خواہش کے پر لگا کر اڑتی ہوئی حرص و ہوس کے آسمان کی اس بلندی تک جا پہنچی کہ جہاں توازن برقرار رکھنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ خالہ نے شادی کی تاریخ مانگ لی تو تا یا جی نے ایک سال بعد رخصتی کے لئے کہہ دیاتا کہ فرحانہ پڑھائی مکمل کرنے۔ خالہ یہ کہہ کر چلی گئیں کہ ٹھیک ہے ہم ایک سال انتظار کر لیں گے مگر میں سال بعد بارات لے کر آئوں گی ۔ ان کے جانے کے بعد وہ میرے پاس آئی، بولی کہ خالہ نے شادی کی تاریخ مانگی ہے، میں بہت پریشان ہوں۔ اس میں پریشانی والی کون سی بات ہے ؟ یہ تو خوشی کی بات ہے کہ تمہاری شادی ہو رہی ہے۔ وہ بولی۔ سب کچھ جانتے بوجھتے تم میرے زخموں پر نمک پاشی کر رہی ہو۔ اچھا تو پھر تم سیدھے سجا کو اپنی ماں سے بات کر لو اور جرات کے ساتھ جوتمہارے دل میں ہے، کہہ گزرو۔انہی دنوں میرے ایک کزن کی شادی تھی۔ سو ہم ملتان چلے گئے کہ وہاں شادی کے ہنگامے میں فرحانہ کا خیال نہ رہا۔ میں نے ملتان سے اس سے رابطہ نہ کیا۔ ہمیں وہاں پندرہ دن لگ گئے۔ اس دوران جانے کیا بات ہوئی کہ تایا جان نے اس کی شادی کی تاریخ دے دی۔ میں واپس آکر اس سے ملی، وہ بہت پریشان تھی۔ پریشانی کسی نادان کو لاحق ہو تو بنے بنائے کام بھی بگڑ جاتے ہیں اور انسان عجلت میں کوئی غلط قدم بھی اٹھالیتا ہے۔ اس نے بھی پریشانی میں ایک غلط شخص کا انتخاب کر لیا تھا۔ بے شک وہ اس کے والد کے انڈر کام کرتا تھا لیکن فرحانہ کے لئے تو ایک بند کتاب کی مانند تھا۔ اس کا نام عادل تھا اور تایا جی کی فیکٹری میں مینجمنٹ کا کام سیکھ رہا تھا۔ یہ ان کے بزنس پارٹنر کا لڑکا تھا اور کبھی کبھار کسی کام سے گھر پر بھی ان کے پاس آجاتا تھا۔ ایک روز وہ گھر آیا تیا یا گھر پر نہ تھے بلکہ سارے گھر والے بھی کسی تقریب میں گئے ہوئے تھے ، پیپرز کی تیاری کے باعث فرحانہ گھر پر تھی۔عادل نے دستک دی۔ فرحانہ دروازہ کھولا اور پہلی ہی نظر میں اس خوبرو نوجوان کے حسن و جمال سے متاثر ہو گئی۔ اس کو خبر تھی کہ یہ اس کے والد کے شریک کار و بار کا اکلوتا بیٹا ہے اور بہت مالدار گھرانے سے ہے۔ سوچا اب تک اس کے بارے میں کیوں غافل تھی، کبھی اس کو غور سے دیکھا بھی نہیں، کیوں آج کے دن ہی اس کی شاندار شخصیت کا سحر محسوس کیا۔ کبھی اس کے دل نے عادل کا انتخاب کر لیا۔ شاید اس لئے کہ ر یان کے ساتھ شادی سے بچنا چاہتی تھی۔ اس تیز طرار لڑکے نے فرحانہ کی نظروں میں اپنے لئے پسندیدگی کے احساس کو بھانپ لیا۔ اس روز تو وہ چلا گیا کہ گھر میں کوئی نہ تھا۔ اکیلی ہونے کے سبب فرحانہ نے آنے کے لئے نہ کہا لیکن بعد میں وہ تایا جی کا کھانا لینے کے بہانے آنے لگا۔ جس روز ڈرائیور ان کے دیگر کاروباری کاموں میں مصروف ہو تا تو عادل کھانا لینے آجاتا کیونکہ اس کے پاس اپنی گاڑی تھی۔ کھانا فرحانہ پیک کر کے دیتی، اس طرح ان دونوں کی آپس میں بات چیت ہو جاتی۔ پہلے وہ ہفتے میں ایک آدھ بار آتا۔ پھر روز آنے لگا۔ شاید تا یا اس پر زیادہ اعتبار کرتے تھے کہ بعض نوکر کھانے کو راستے میں چکھ بھی لیتے تھے۔ ایک دن عادل آیا تو گھر میں کوئی نہ تھا تبھی فرحانہ نے اس کو گیسٹ روم میں بیٹھنے کو کہا کیونکہ وہ باہر کی جانب تھا۔ اس نے پوچھا، آنٹی کہاں گئی ہیں ؟ وہ برابر میں گئی ہیں۔ فرحانہ نے جواب دیا۔ جب کھانے کی تیاری کے مرحلے میں تھوڑی سی دیر باقی رہ جاتی تب تک وہ آنٹی سے باتیں کرتارہتا۔ باہر بہت گرمی تھی، اس نے پانی مانگا۔ فرحانہ کولڈ ڈرنک گلاس میں ڈال کر لے آئی۔ آج عادل اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی تیز نظروں سے وہ کچھ گھبراگئی۔ وہ بھی اسے دیکھنے میں اس قدر محو تھا کہ گلاس کو ٹھیک طرح سے پکڑ نہ پایا اور مشروب چھلک گیا، تبھی گلاس بھی اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا۔ شربت کپڑوں پر گرا تو اس کے کپڑے خراب ہو گئے۔ فرحانہ نے شرمندہ ہو کر کہا۔ معاف کرنا، یہ میری غلطی سے ہوا ہے۔ اس کی بوکھلاہٹ پر وہ مسکرادیا۔ بہر حال مزید کچھ کہے بغیر وہ کھانا لے کر چلا گیا ، وہ یہی سمجھی کہ عادل ناراض ہو کر گیا ہے۔ وہ دیر تک شرمندگی محسوس کرتی رہی۔ اگلے دن تایا جی کی طبیعت خراب ہو گئی۔ وہ فیکٹری نہ گئے، تبھی عادل یہ معلوم کرنے ان کے گھر آیا کہ آج کیوں نہیں آئے۔ جب تایا جی کی طبیعت زیادہ خراب ہونے لگی ، دونوں ماں بیٹی ڈرائیور کو دیکھنے گھر سے باہر آئیں۔ دیکھا کہ عادل اپنی گاڑی سے اتر رہا ہے۔ ان کو پریشان دیکھ کر پوچھا۔ خیریت تو ہے۔ ہاں تمہارے انکل کی طبیعت بہت خراب ہے بیٹے ، اسی وجہ سے پریشانی ہورہی ہے۔ عادل کو وہ اندر لے آئیں۔ اس نے انکل کو دیکھتے ہی کہا کہ ڈرائیور کا انتظارنہ کریں، میں ان کو اپنی گاڑی ہیں اسپتال لئے چلتا ہوں۔ وہ سہارا دے کر تا یا ہی کو گاڑی تک لایا اور فوراً ان کو اسپتال لے گیا۔ ڈاکٹر نے ان کو داخل کر لیا۔ وہ واپس آکر آنٹی اور فرحانہ کو بھی اسپتال لے گیا۔ ان دونوں پر ایسے وقت اس سے بڑا احسان کیا۔ وہ رات تک تایا جی کے پاس ہی رہا۔ فرحانہ نے اس کے اس احسان کو اپنے دل میں جگہ دے دی۔ اب فرحانہ کو عادل بہت اچھا لگنے لگا۔ وہ بے چینی سے اس کا انتظار کرتی۔ تایا جی اسپتال میں تھے اور آنٹی ان کے پاس ہو تیں۔ عادل گھر آتا، فرحانہ سے انکل کے لئے کھانا لے جاتا۔ اس دوران وہ کچن میں آجاتا اور اس کے ساتھ باتیں کرتارہتا۔ جب وہ سوپ و غیرہ تیار کر رہی ہوتی ، وہ اس کی باتوں کے جواب میں ہوں ہاں کرتی رہتی۔ تب اس نے کہا۔ کیا بات ہے فرحانہ آپ بولتی کم ہیں حالانکہ آپ کی آواز ایسی ہے کہ بار بار سننے کو دل چاہتا ہے۔ اس پر بے اختیار وہ بول پڑی۔ باتیں صرف زبان سے ہی نہیں کی جاتیں، کیا آپ نگاہوں کی زبان نہیں سمجھ سکتے۔ یہ اس نے بے باکی کے ساتھ بہت بڑی بات کہہ دی تھی۔ وہ تو جیسے موقع کی تلاش میں تھا۔ کہنے لگا۔ آپ تو پہلی نظر میں میرے دل میں سما گئی تھیں۔ ڈرتا تھا کہ کچھ کہہ دیا اور آپ کو نا گوار ہوا تو ناراض ہو جائیں گی۔ جب سے آپ کو دیکھا ہے جینے کا ڈھنگ آگیا ہے۔ وہ نجانے اس قسم کی اور کتنی باتیں کہتا رہا اور فرحانہ ان باتوں کی بھول بھلیوں میں گم ہوتی چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد بھی وہ گم صم بیٹھی رہ گئی تھی۔ اگلے دن جب وہ آیا۔ اس نے دیکھا کہ فرحانہ ان کی باتوں کے جال میں الجھ گئی ہے۔ وہ بے چینی سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے آتے ہی دوسرا جال پھینکا۔ کہا کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ انکل کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی، اچھا ہے کہ بیٹی کے فرض سے جلد سبکدوش ہو جائیں۔ کیا واقعی تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو ؟ ہاں! میں تم سے شادی کو اپنے لئے سب سے بڑی خوش نصیبی سمجھوں گا۔ کچھ لوگ ہماری زندگی میں کچھ اس انداز سے داخل ہوتے ہیں کہ ہم کو پتا نہیں چلتا کہ وہ کب ہمارے دل میں آسماتے ہیں۔ میرا خیال ہے ایسے لوگ خود بخود دل کی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں اور اپنی مرضی سے جاتے ہیں۔ تم بھی بلا ارادہ میرے دل پر قابض ہو چکی ہو۔ آپ ڈائیلاگ اچھے بول لیتے ہیں۔ یہ کہہ کر تم میرے جذبات کی توہین کر رہی ہو فرحانہ ۔ اب جو بھی کہہ لو لیکن میری آرزو کو ٹھکرانے کی بات مت کرنا۔ زندگی میں بہت سی لڑکیوں کو دیکھا ہے مگر نظر انتخاب تم پر مظہر گئی ہے۔ مجھ کو تمہارا جواب چاہئے۔ سوچ کر بتائوں گی ، اس وقت امی آرہی ہیں۔ فرحانہ نے کہا۔ اسی وقت فرحانہ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ ماں سے بات کرے گی کہ ریان ہی کیوں، اس کی جگہ عادل کیوں نہیں ، اس میں کیا کمی ہے۔ اس نے ماں سے بات کی۔ فرحانہ کی امی حیران رہ گئیں۔ بولیں۔ کیا بات ہے آج تم کیوں اس قدر جذباتی ہو رہی ہو۔ وہ خاموش رہی۔ بیٹی ! ماں باپ کے فیصلے کوئی اہمیت نہ رکھتے یا ان کی ضرورت نہ ہوتی تو اللہ یہ رشتے نہ بناتا۔ ہر رشتے کا ایک اپنا مقام ہے اپنا تقدس ہے۔ میں مانتی ہوں امی کی والدین کے فیصلے بیٹیوں کے لئے درست ہوتے ہوں گے لیکن آپ کے فیصلے نے جیتے جی مجھ کو جہنم کی آگ میں جلنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ فرحانہ تم کیا کہہ رہی ہو ، ہم نے تمہارے ساتھ کون سا ظلم کیا ہے۔ آپ سب نے مل کر مجھ کو سارا جیون جلنے کے لئے آگ میں دھکا دیا ہے۔ میں ہر گز تین کمروں والے گھر میں بیاہ کر نہ جائوں گی۔ مجھ کو خالہ کے گھر کا سوچنے سے ہی گھٹن ہوتی ہے. بیٹی کیا کہہ رہی ہو ؟ رشتے مکینوں سے ہوتے ہیں، مکانوں سے نہیں۔ ریان محنتی لڑکا ہے ، ایک نہ ایک دن ضرور دوسرا بڑا گھر بنالے گا۔ بنالے گا یا نہیں بنا پائے گا۔ اللہ جانے لیکن میں یہ رسک نہیں لے سکتی۔ ماں آپ کو میری زندگی برباد ہونے سے بچانا ہو گی۔ میں آپ کی منت کرتی ہوں، میری مدد کیجئے۔ مائیں اپنی اولاد کے لئے کیا کچھ نہیں کرتیں، تو کیا آپ میرے لئے کچھ نہیں کر سکتیں۔ اس کی منت سماجت پر تائی جی نے کہا۔ اچھا ٹھیک ہے، میں تمہارے پاپا سے بات کروں گی۔ رات کو جب سب کھانے پر بیٹھے ، فرحانہ نہیں آئی۔ ماں نے کہا، اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، کھانا کھا چکنے کے بعد تائی جی نے بات شروع کی کہ فرحانہ ، ریان سے شادی نہیں کرنا چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ یہ منگنی توڑ دیں ورنہ میں کچھ کھالوں گی۔ اس پر باپ اور بھائی سٹپٹا گئے۔ حیران تھے آخر وہ ایسا کیوں کہہ رہی ہے کہ وہ غریب گھرانے میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ اس کے بھائی غصے میں آگئے۔ یہ کیا بات ہوئی، بھلا یہ بھی کوئی بات ہے۔ اس نے یہ کیسے کہہ دیا۔ ہماری عزت اور غیرت کا معاملہ ہے، منگنی ہو چکی ہے۔ ہماری نظر میں ریان سے اچھا کوئی نہیں ہے۔ امی آپ اس کو سمجھادیں کہ جو وہ چاہتی ہے وہ نہیں ہو گا۔ غربت کے علاوور یان میں کیا برائی ہے اور غربت دور ہو سکتی ہے۔ غریب ہونا کوئی عیب نہیں، ان کواللہ نے اتارزق دیا ہے کہ عزت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ امیری غربی مستقل رہنے والی چیز نہیں ہے۔ ان کے یہ دن بھی بدل جائیں گے۔ والد اور بھائی صبح سب اپنے اپنے کام پر چلے گئے۔ فرحانہ نے ماں سے پوچھا۔ تائی جی نے اس کو رات والی گفتگو گوش گزار کر دی۔ سمجھانے کی کوشش بھی کی ، وہ کسی صورت نہیں مانی۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اگر انہوں نے اس کی نہ مانی تو وہ بغاوت کر دے گی۔ اگلے دن عادل انکل کی طبیعت پوچھنے آیا تو اس کو دیکھ کر فرحانہ خوشی سے گلنار ہو گئی۔ جب سے اس نے عادل کی توجہ حاصل کی تھی، اس کو یہ گھر اور اپنے گھر کے لوگ پرائے لگنے لگے تھے۔ وہ صرف عادل کو ہی اپنا سمجھتی تھی۔ عادل تائی چی سے ملا، وہ بہت پریشان تھیں۔ اس نے پریشانی کی وجہ پوچھی، تب انہوں نے بتادیا کہ فرحانہ کی منگنی ریان سے ہو چکی ہے اور اب وہ ہم کو پریشان کر رہی ہے۔ تائی جی نے عادل کو گھر کا فرد سمجھتے ہوئے سارا احوال بتا دیا اور مدد کی درخواست کی۔ وہ سارا قصہ سننے کے بعد کچن میں گیا اور فرحانہ سے بات کی کہ تمہاری امی پر یشان ہیں، تم کیا کہتی ہو ؟ میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔ اگر تم نے مجھ سے شادی نہیں کرنی تو میں پھر بھی ریان سے شادی نہیں کروں گی۔ اچھا تو پھر تم منگنی تروا لو۔ تمہارے والدین نہیں مانتے توریان سے کہہ دو کہ تم اس کو نا پسند کرتی ہو اور شادی نہیں کرنا چاہتیں۔ وہ اتنا ہی اچھا اور نیک ہے تو ضرور تمہاری رضا کی پر وا کرے گا اور خود منگنی ختم کر دے گا۔ عادل دہری چال چل رہا تھا۔ ادھر وہ فرحانہ کی والدہ سے کہتا کہ آپ کی لڑکی کو سمجھارہا ہوں وہ مان جائے گی اور ادھر فرحانہ کو کہتا کہ فورا منگنی توڑ لو۔ میرے پاس بہت بڑا گھر ہے، میں تم کو خوش رکھوں گا۔ شادی کے بعد ہم گھومنے جائیں گے۔ میں تم کو ساری دنیا کی سیر کرائوں گا۔ وہ جب یہ باتیں سنتی، اس کے دل میں ارمان مچل اٹھتے۔ اس کو عادل کے علاوہ دنیا میں اور کچھ نظر نہ آتا تھا۔ ریان ان کے گھر آیا۔ اس نے اس کے ساتھ سیدھے منہ بات نہ کی۔ اس نے پانی مانگا تو فرحانہ نے منگنی کی انگو ٹھی گلاس میں ڈال کر اس کو دے دی اور کہا کہ پانی کی بجائے یہ انگو تھی اٹھا لو اور غصہ پی لو۔ میں تم سے شادی نہیں کر رہی۔ یہ بات اس کے بھائی نے سنی تو وہ اس کو مارنے کو لپکا لیکن ریان نے اسے تھام لیا اور ماں بھی درمیان میںآگئی۔ ریان خاموشی سے انگوٹھی لے کر چلا گیا۔ تائی جی، کسی کو بتائے بغیر عادل کے گھر گئیں اور اس کی والدہ سے بات کی۔ اس خاتون نے کہا۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، ہم اپنے بیٹے کی شادی طے کر چکے ہیں اور عادل کو بھی اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اگلے ماہ کی دس تاریخ کو اس کی شادی ہے۔ یہ سن کر تائی کو سکون ملا۔ وہ گھر لوٹیں تو کسی کو نہ بتایا کہ وہ کہاں گئی تھیں۔ منگنی کی انگوٹھی ریان کو واپس کرنے پر فرحانہ کے بڑے بھائی نے اس کو مارا تو اسے بخار ہو گیا لیکن عادل نہ آیادہ تو اپنی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ فرحانہ انتظار کرتی رہ گئی ، وہ نہ آیا اور پھر ایک دن جب وہ آیا تو اس کے ہاتھ میں شادی کا کارڈ تھا۔ وہ سید ھا تایا جی کے پاس گیا اور ان کو کارڈ دے کر کہا کہ آپ لوگ میری شادی میں ضرور آنا۔ اس نے فرحانہ سے بات تک نہ کی۔ اس کے آنے سے جو شہنائیاں فرحانہ کے دل میں بجتی تھیں، وہ اب نوحوں میں تبدیل ہو گئیں، اب ہر شے روتی ہوئی لگتی تھی۔ اسے لگا جیسے کسی نے اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی ہو۔ اس کے جسم سے روح نکل رہی تھی۔ وہ بڑی مشکل سے خود کو گھسیٹ کر اپنے کمرے میں جا کر بستر پر گر گئی۔ تائی جی نے مجھے بلوایا کہ اسے دیکھو۔ اس نے کمرہ بند کر لیا ہے۔ میں نے اس کے بھائی کی منت کی۔ اس نے کھڑکی توڑی، ہم اندر گئے، وہ بے ہوش پڑی تھی۔ اسے اسپتال لے گئے، دودن بعد اسے ہوش آیا۔ ڈاکٹر کو تمام احوال بتایا تو اس نے اس کو سکون کی دوائیں دیں۔ وہ ایک سال زیر علاج رہی تب کہیں جا کر کچھ نارمل ہوئی۔ تائی جی اور ریان کی امی تو آپس میں سگی بہنیں تھیں۔ بہن نے بہن سے بیٹی کی طرف سے معافی طلب کی۔ خالہ نے معاف کردیا اور ریان کو بھی منالیا۔ دونوں کی شادی ہو گئی۔ کچھ عرصہ فرحانہ کھوئی کھوئی رہی۔ تا یا کے پاس پیسوں کی کمی نہ تھی ، انہوں نے ایک بنگلا خرید کر اس کو فرنیچر سے آراستہ کر کے بیٹی کو جہیز میں دیا، ہر شے دی یہاں تک کہ گاڑی بھی دی اور ریان کو فیکٹری سونپ دی تاکہ ان کی بیٹی کو اپنے شوہر کی غربت کا احساس نہ ہو۔ یوں اللہ تعالی نے ریان کو اس کی اچھائی کا ثمر دے دیا اور فرحانہ کو بھی اچھے برے کی پر کھ ہو گئی۔ اس کو ریان سے نفرت نہ تھی، نفرت توتبسم نے دلائی تھی، وہ بھی اس کی غربت سے ، جب غربت نہ رہی تو پھر نفرت کیسی۔ تو یہ ہے انسان کی ان بلند سوچوں کی اوقات جو حرص و ہوس کے تابع ہوں تو وہ ریت کے گھروندوں کی طرح گرتے ہیں۔ آج ریان ہی فرحانہ کا سب کچھ ہے اور اس کو اپنے شوہر سے کوئی شکایت نہیں ہے۔