Naseeb Jali Pashmeena Teen aurtein Teen kahaniyan

پشمینہ کا تعلق ایک خوبصورت کو ہساری علاقے سے تھا۔ وہ میرے والد کے ایک کزن کی بیٹی تھی۔ ہم راولپنڈی میں رہا کرتے تھے اور پشمینہ سے تبھی ملاقات ہو پاتی جب والد کے ان رشتے داروں کے یہاں کسی کی شادی ہوتی اور ہم کو مدعو کیا جاتا۔ مجھ کو سر سبز اور خوبصورت مناظر سے گھرا ہوا یہ گائوں بہت بھلا لگتا، تبھی میں باباجان سے شادی میں شرکت کے لئے اصرار کرتی، اس بہانے میری پشمینہ سے بھی ملاقات ہو جاتی۔ وہ گائوں کی آب و ہوا میں پلی بڑھی اور اس کی پرورش پر یہ روح پرور کھلی آب و ہوا اثر انداز ہوئی تھی۔ اس کی چال میں بجلی کی سی تیزی تھی۔ کیا اس پہاڑی لڑکی کی تعریف بیان کروں۔ بولتی تھی تو لگتا کو کل سریلی آواز میں کوئی گیت الاپ رہی ہو، سفید سحر کی کی رنگت تھی اس کی اور گالوں پر شفق کی لالی۔ وہ فطرت کی بیٹی لگتی تھی۔ قدرت نے اس شاہ کار کو بطور خاص تخلیق کیا تھا اور اس کے ماں باپ کو اس کا محافظ مقرر کیا تھا۔ مدت بعد جب وہ ہمارے گھر اپنے شوہر کا علاج کرانے آئی ، میں اس کو پہچان نہ سکی۔ حالات نے بالآخر اس کے گلاب چہرے سے تازگی اور خوبصورتی چھین لی تھی۔ وہ پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ ماں اس کے لئے اچھے سے اچھا لباس بناتی اور بہترین انداز میں تربیت بھی کی، مگروہ اس کی تقدیر کو بہترین نہ بنا سکی۔ ابھی یہ کلی پوری طرح کھلنے بھی نہ پائی تھی کہ گورش خان اس کی زندگی میں خزاں کی پر چھائیں بن کر داخل ہوا۔ وہ بستی کا سب سے دولت مند اور بااثر آدمی تھا اور لوگوں پر حاوی رہتا تھا۔ وہ بستی کے لوگوں کے چھوٹے موٹے مسائل حل کر دیتا اور سرداری کی مسند پر براجمان رہتا تھا۔ وہ شادی شدہ اور بال بچے دار آدمی تھا مگر اپنی عیاش طبیعت کی وجہ سے پشمینہ پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ جب وہ چودہ برس کی ہو گئی اور رواج کے مطابق اس کی شادی بارے صلاح و مشورے ہونے لگے تو گورش نے اس کے والد سے پشمینہ کا ہاتھ مانگ لیالیکن باپ اور بھائی اسے سوکنوں کے جہنم میں جھونکنے کو رضامند نہ ہوئے اور انہوں نے گورش خان کو صاف انکار کر دیا۔ یہ انکار گورش کی انا پرست طبیعت پر کھلا تھپڑ تھا۔ اس نے کھلم کھلا تو کچھ بات نہ کہی لیکن دل میں ان لوگوں سے بدلہ لینے کی سوچنے لگا۔ پشمینہ کا بھائی سلیمان جس لڑکی سے شادی چاہتا تھا ، اس لڑکی کے باپ کی یہی شرط تھی کہ وہ تبھی اپنی لڑکی زرینہ کو دے گا جب بدلے میں اس کے بیٹے قابل کے لئے رشتہ ملے گا۔ زرینہ کے والد نے فیصلہ سردار پر چھوڑ دیا۔ سردار گورش نے فیصلہ سنادیا کہ سلیمان کو زرینہ کا رشتہ تبھی مل سکتا ہے جب وہ اپنی بہن پشمینہ کارشتہ بدلے میں قابل کو دے دے گا۔ یہ بات پشمینہ کے والد کو منظور نہ تھی کیونکہ قابل خان نام کا قابل تھا لیکن وہ کسی صورت اس کی بیٹی کے قابل نہ تھا۔ باپ نے انکار کیا تو بیٹے یعنی سلیمان نے والد پر دبائو ڈالا۔ وہ کسی صورت اپنی محبت کو کھونانہ چاہتا تھا۔ بیٹے کے دبائو سے باپ مجبور ہو گیا اور اس نے ہتھیار ڈال دیئے۔ پشمینہ اور اس کی والدہ بھی قابل سے رشتے پر بہت روئیں مگر ان کی آہ و فغاں پر کسی نے کان نہ دھرے۔ سلیمان کی توزرینہ کو پاکر عید ہو گئی مگر اس کی بہن بیچاری بھائی کی خود غرضی پر واری گئی۔ یہ شوخ و چنچل لڑکی، جو الہڑ بھی تھی۔ اپنے والدین کی اطاعت گزاری میں چپ چاپ قابل خان کے حجرے میں آن بسی۔ ظاہری طور پر وہ پُر سکون دکھائی دیتی تھی لیکن اس کے اندر ہر وقت ایک جنگ جاری رہتی۔ وہ قابل کو دل سے قبول نہ کر سکی تاہم حالات سے سمجھوتہ کرنا ہی تھا۔ گورش خان خوش تھا کہ اس نے ایسا فیصلہ کرا کر پشمینہ کے باپ کو سبق سکھادیا ہے کہ جس نے سردار کے رشتے کو ٹھکرادیا، اس کو اجڈ کے پلے باندھ دیا گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ شریف گھرانہ اور ان کی لڑکی ہر حال میں صابر شاکر اور پُر سکون ہیں تو اسے پھر بے عزتی کے احساس نے گھیر لیا۔ اس نے کسی نہ کسی طرح پشمینہ کی ساس کو باور کرادیا کہ اس کی بہو با کردار لڑکی نہیں ہے۔ وہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن میں نے بستی اور برادری کی عزت بچانے اور تمہاری لڑکی کا خیال کرتے ہوئے ایسا فیصلہ کیا – قابل کی ماں ان پڑھ عورت تھی، جس کی زندگی رکھ رکھائو سے عاری تھی۔ اس کے کہنے پر وہ بہو کے کردار کی کھوج میں چو کنی رہنے لگی۔ یوں بھی اسے پشمینہ کی خاموشی زہر لگتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ یہ لڑ کی قابل کی بیوی بن کر خوش نہیں ہے، ہر وقت چپ چپ اور سنجیدہ رہتی ہے ، سو ضرور دال میں کچھ کالا ہی ہو گا۔ قدرت بھی شاید ان دنوں پشمینہ پر نامہربان ہو گئی تھی کیونکہ ساس کے شک کو یقین میں بدلنے کا موقع بہت جلد مل گیا کہ ایک دن اس کی بہو درخت سے خو بانیاں توڑ کر لارہی تھی کہ نالے کے پاس پڑے پتھروں میں پائوں رکھنے سے اپنا توازن برقرارنہ رکھ سکی۔ اتفاق سے پاس ہی ایک شخص موسیٰ خان مویشیوں کے لئے گھاس اکٹھی کر رہا تھا، اس نے جو پشمینہ کو گرتے دیکھا دوڑ کر آیا۔ یہ شخص پشمینہ کا ماموں زاد تھا، اس نے پتھروں پر گرتی ہوئی پشمینہ کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اٹھنے میں مدد دی۔ تبھی اسے قابل کی ماں نے دیکھ لیا۔ وہ د ور سے یہ نہ دیکھ سکی کہ مدد کو آنے والا مرد کون ہے جس نے اس کی بہو کا ہاتھ پکڑا ہے اور یہ اسے دیکھنے اور جانے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ پھر تو جیسے پشمینہ کے لئے گھر ایک جہنم بن گیا۔ ساس اسے بات بات پر طعنے دینے لگی۔ جو لڑ کی کبھی ماں باپ کی ایک جھٹرکی تک سننے کی عادی نہ تھی، ساس اُس پر ہاتھ اٹھانے لگی۔ اس نے پھر بھی اف نہ کی ، چپ چاپ زندگی کے عذاب سہتی رہی کیونکہ اب اس کا منصب اور بڑھ گیا تھا۔ وہ ماں بنے والی تھی۔ ان کی باتیں سننی اور برداشت کرنا تھیں۔ ایک روز ساس اس کو چولہا جلانے والی لکڑی سے پیٹ رہی تھی کہ اُس کی ماں آگئی۔ اس نے بیٹی کو چھڑایا اور ایس سلوک کی وجہ پوچھی۔ بھلا وہ کیا بتاتی۔ شادی اور اس کے بعد کے مسائل سردار ہی حل کرتے تھے اور وہ نہ چاہتی تھی کہ اس کے مسئلے سردار ان کی مرضی سے حل ہوں۔ وہ اس قسم کے فیصلوں سے خوفزدہ تھی۔ وہ اب برادری پر اعتبار نہیں کر سکتی تھی۔ وہ مطمئن تھی کہ قابل اس سے خوش تھا، وہ اسے تنگ نہیں کرتا تھا، محبت کرتا تھا اور کچھ نہیں کہتا تھا۔ بیٹے کی پیدائش پر تو وہ اس سے اور بھی زیادہ محبت کرنے لگا تھا۔ ساس کو بیٹے کا بہو کی طرف یہ جھکاؤ اچھا نہیں لگا تبھی اس نے قابل کے کان بھرنے شروع کر دیے۔ وہ تھا تو ذرا کم عقل ،ماں کی باتوں سے بھڑک جاتا تو بیوی کو مارنے لگتا مگر بعد میں اس کو شدید دکھ ہوتا۔ یوں اس کی ذہنی حالت دن بہ دن خراب ہونے لگی۔ غصّے اور دکھ کے ملے جلے اثرات نے اس کے کمزور ذہن پر دبائو ڈالا۔ وہ اسے برداشت نہ کر سکا اور نفسیاتی مریض بن گیا۔ قابل کی ماں گورش خان کو گھریلو خلفشار سے گاہے گاہے آگاہ کرتی اور مشورے لیتی تھی۔ سردار صاحب کو اچھا موقع ہاتھ لگا، وہ پشمینہ کی شخصیت کو تو نہ توڑ سکا، اس نے قابل کے کچے ذہن کو مٹھی میں لینا شروع کر دیا۔ اب وہ باتوں باتوں میں بستی والوں سے کہتا تھا کہ قابل پہلے صرف بھولا تھا، اب شکوک و شبہات نے پاگل کر دیا ہے۔ بستی کے لوگ بھی اس کے ساتھ مل گئے اور قابل کو پاگل کہنے لگے۔ کچھ عر صے اس بھولے بھالے آدمی نے لوگوں کے اس رویئے کو برداشت کیا لیکن جلد ہی اسے خود اپنی ذہنی صحت پر شک ہونے لگا اور وہ پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے لگا۔ اب وہ تین تین دن تک کھانا نہ کھاتا اور گاہے گاہے اس پر جنونی کیفیات کے دورے پڑنے لگے۔ اس کے بعد اس کی پہچاننے کی حس ختم ہو گئی۔ اس وقت تک پشمینہ تین بچوں کی اماں بن چکی تھی۔ قابل ہی تو اس کی آس وامید تھا۔ یہ آ س بھی ختم ہونے لگی۔ اب گورش کے دل پر ٹھنڈک بیٹھی کہ پشمینہ کے ماں باپ نے اس کو ٹھکرا کر جو بے عزتی کی تھی، اس نے قابل کو بستی بھر میں پاگل قرار دلوا کر بدلہ لے لیا تھا۔ جب بیٹا پاگلوں کی سی حرکتیں کرنے لگا تو قابل کی ماں کی عقل ٹھکانے آئی کہ یہ میں نے کیا کر دیا۔ وہ پیروں فقیروں کے چکر میں پڑ گئی۔ کہتی کہ بہو اور اس کے گھر والوں نے میرے بیٹے پر تعویذ کئے ہیں۔ یہ خیال جنون کی حدوں تک پہنچ گیا۔ ادھر قابل دنیا سے رفتہ رفتہ بیگانہ ہونے لگا۔ اپنے بچوں کو بھی نہ پہچانتا تھا اور اس کو سردی گرمی کا احساس جاتا رہا۔ وہ دراصل بیوی سے اتنی محبت کرتا تھا کہ پشمینہ کے بارے میں بد کردار کا لفظ اسے برداشت نہ تھا اور ماں ہی اُس کو اس بارے سب سے زیادہ صدمہ پہنچاتی تھی۔ پشمینہ کے بھائی اور والد قابل کو راولپنڈی لے کر آئے ، ڈاکٹروں کو دکھایا، انہوں نے ماہر نفسیات ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے کہا اور میرے والد صاحب نے ان لوگوں کو رہائش دی، کافی مدد کی۔ اس طرح قابل بھائی کا علاج شروع کیا گیا۔ ذہنی امراض کے اسپتال سے علاج کروانے سے کچھ بہتر تو ہو گئے ، لیکن پہلے جو اپنی مشقت سے ، اپنی زمین پر سال بھر کا اناج اگا لیتے تھے ، اس کام سے وہ گئے۔ خاندان والے افسوس کرتے تھے لیکن ان کے بچوں کی ذمہ داریاں کوئی قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ بہر حال پشمینہ کے بابا اپنے داماد بیٹی اور بچوں کو واپس بستی لے گئے اور ساس سے الگ، اس کو دو کمروں کا گھر لے کر دیا جہاں وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہنے لگی۔ قابل اب کمانے کے قابل نہ رہا تھا۔ ہر وقت خُدا جانے کس بارے اور کیا سوچتار بتا تھا اور بیچاری پشمینہ محنت مشقت کر کے گھر چلانے پر مجبور تھی۔ جب تک باپ زندہ رہا، بھائی بھی اس کا حال پوچھ لیتے تھے۔ والد کے بعد اسے کوئی پوچھنے والا بھی نہ رہا۔ بھائی اپنی دنیا میں مگن اور وہ غم کی دنیا میں تن تنہا زندگی کی گاڑی گھسیٹتی تھی۔ وہ میٹرک پاس تھی مگر چھوٹے سے گائوں میں بھلا اسے کون سی نوکری مل سکتی تھی۔ اب وہی ساس اس کی منت کرتی تھی، مجھے معاف کردو، مجھ کو پہچان نہ تھی۔ اب عقل آئی ہے ، جب بیٹے کو ہاتھ سے گنوادیا ہے، لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت