نئے سال میں بھی شہریوں کے چہرے لٹک کر رہ گئے، محنت کش دیہاڑی دار سراپا احتجاج

جہلم: نئے سال میں شہریوں کے چہرے لٹک کر رہ گئے، امپورٹڈ حکومت کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، 8 ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ڈالرز سمیت کوئی چیز بھی سستی نہ ہوسکی۔ مہنگائی، بیروز گاری کے خلاف لانگ مارچ بے سود ثابت ہوئے، محنت کش دیہاڑی دار سراپا احتجاج، شہری اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔
تفصیلات کے مطابق حکمرانوں نے 22 کروڑ عوام کو ایک مرتبہ پھر اپنے پرانے پاکستان میں دھکیل دیا، لوٹ مار، کرپشن، بدعنوانی، معاشی بدحالی سمیت لاقانونیت عروج پر غریب محنت کش دیہاڑی دار 2 وقت کی روٹی کے حصول کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، حکمران ریلیف دینے کے نام پر حکومت میں آئے اور مہنگائی میں کئی سو گنا اضافہ کرکے عوام کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر رکھا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ حکمرانوں نے اسٹیبلشمنٹ کے آشیرباد سے رات کے اندھیرے میں جمہوری حکومت پر ڈاکہ ڈالا اور عوام کو ریلیف دینے کے نام پر اسلام آباد پر قبضہ قائم کیا۔ 8 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پھوٹی کوڑی کا ریلیف فراہم نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آج سے 8 ماہ قبل آٹا فی کلو 50 روپے فروخت ہو رہا تھا، ریلیف دینے کے دعوے داروں نے آٹے کی قیمت 130 روپے مقرر کررکھی ہے اسی طرح پٹرول کی قیمت 150 روپے فی لیٹر تھی جو اس وقت 215 روپے لیٹر فروخت ہو رہا ہے، یوٹیلیٹی سٹورز پر عام شہری کو خریداری کی سہولت میسر تھی جو موجودہ حکمرانوںنے چھین لی ہے جس کی وجہ سے ہر طرف کسمپرسی ہی کسمپرسی نظرآتی ہے۔
شہریوں نے کہا کہ کارروباری افراد صارفین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہے جبکہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام بری طرح مفلوج ہو چکا ہے، سرکاری اداروں میں رشوت کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں، محکموں کے افسران نے لوٹ مار کے لئے اپنے نائب مقرر کر رکھے ہیں۔
شہریوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو فعال بنایا جائے اور حکمرانوں کو ان کی ذمہ داریوں بارے آگاہ کیا جائے تا کہ وطن عزیز میں نافذ جنگل کے قانون کا خاتمہ ہو سکے۔