جہلم کی عدالت نے سارہ شریف کے پانچ بہن بھائیوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیا

جہلم: برطانیہ میں دس سالہ سارا شریف کا مبینہ قتل کیس، سینئر سول جج جہلم نے عرفان شریف کے پانچوں بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کرنے کے احکامات جاری کردئیے، دس سالہ سارا شریف کے مبینہ قتل کیس میں اس کا والد عرفان شریف، سوتیلی والدہ بینش اور چچا فیصل روپوش ہیں، برطانوی حکومت نے ان کے بلیو جبکہ پانچ بچوں کے ییلو لیٹر جاری کیے۔
برطانیہ میں گھر میں مردہ پائی جانے والی 10 سالہ بچی سارا شریف کی لاش ملنے کے بعد اہلیہ اور بھائی کے ہمراہ بھاگ کر پاکستان آنے والے عرفان شریف کے گھر گزشتہ روز جہلم پولیس نے چھاپہ مار کر ان کے بچوں کو اپنی تحویل میں لیا تھا اور اب عدالت نے ان بچوں کو سرکاری چائلڈ کئیر فیسیلیٹی (بچوں کی دیکھ بھال کے مرکز) بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
گزشتہ روز جہلم پولیس نے عرفان شریف کے والد کے گھر چھاپہ مار کر عرفان شریف کے پانچ بچوں تیرہ سالہ نعمان، چھ سالہ جڑواں بچیوں حنا شریف ،اسماء شریف ،چار سالہ احسان اور ڈیڑھ سالہ اذھان کو اپنی تحویل میں لیا تھا۔
منگل کی صبح سیشن کورٹ جہلم میں بچوں کو پیش کیا گیا، عدالت کے اندر اور باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی ،برطانوی ہائی کمیشن کا دو رکنی وفد بھی جہلم پہنچا۔ مختصر سماعت کے بعد سیشن جج نے بچوں کو علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
بچوں کو علاقہ مجسٹریٹ جاوید اقبال کھوکھر کی عدالت میں پیش کیا گیا،عرفان شریف کے والد شریف، بہنیں بھی عدالت میں پیش ہوئیں۔
شریف کے وکیل راجہ حق نواز نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے موقف پیش کیا کہ گزشتہ ایک ماہ سے عرفان اسکی بیوی اور بھائی روپوش ہیں جبکہ بچوں کی کفالت دادا اور پھوپھی کررہی ہے۔
علاقہ مجسٹریٹ نے سماعت کے بعد عرفان شریف کے پانچوں بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی تحویل میں دینے کا حکم دیا۔
یاد رہے کہ یہ پانچ بچے سارا کے والد عرفان شریف کے ساتھ برطانیہ سے پاکستان آئے تھے اور پیر کے روز پاکستانی حکام نے انھیں سارا کے دادا محمد شریف کے گھر سے پولیس نے اپنی تحویل میں لیا تھا۔
10 سالہ سارا کی لاش 10 اگست کو سرے کے شہر ووکنگ میں ان کے گھر سے ملی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتا چلا تھا کہ سارا کے جسم پر ’متعدد شدید چوٹیں‘ تھیں۔
ساراکی لاش ملنے سے ایک روز قبل سارا کے والد عرفان شریف اور ان کی سوتیلی والدہ بینش بتول ان پانچ بچوں کے ہمراہ برطانیہ سے فرار ہو گئے تھے، ان بچوں کی عمریں ایک سے 13 سال کے درمیان ہیں۔
عدالتی فیصلے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بچوں کو کب تک سرکار کی حفاظتی تحویل میں رکھا جائے گا اور نہ ہی اس بات کا ذکر ہے کہ ان بچوں کو اس کے بعد کہاں بھیجا جائے گا۔
منگل کی صبح عرفان شریف کے اہلخانہ ان بچوں کو اپنے ساتھ عدالت میں لے کر آئے۔ اس دوران اُنھیں پولیس اہلکاروں اور مقامی میڈیا کے نمائندوں نے گھیرے رکھا اور یہ سلسلہ قریب 40 منٹ تک جاری رہا۔
اس دوران انھیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کیا جاتا رہا کیونکہ حکام یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان بچوں کے ساتھ کیا ہونا چاہیے۔
تاہم صحافیوں کو پہلی سماعت کے دوران عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی، لیکن بی بی سی کو کمرہ عدالت کے اندر موجود کئی افراد نے بتایا کہ اس بارے میں بحث ہوئی کہ آیا اس عدالت کو عارضی حراست کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے کہ نہیں۔
اس کے بعد بچوں کو فوری طور پر پولیس کی ایک گاڑی میں اُس عدالت میں لے جایا گیا جہاں ان سے متعلق یہ فیصلہ سُنایا گیا۔
سارا کے دادا محمد شریف، جو عرفان شریف کے والد ہیں، نے عدالت سے نکلتے وقت آج کی عدالتی کاروائی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ایک دن پہلے پیر کو سارہ شریف کے والد ملزم عرفان شریف کے آبائی گھر پر چھاپے کے بعد پولیس نے پانچ بچوں کو تحویل میں لیا تھا جن کو بعد میں دادا کے حوالے کر دیا گیا۔
سارہ شریف کے والد عرفان شریف، اپنی اہلیہ اور بھائی سمیت روپوش ہیں۔ برطانوی پولیس ان تینوں افراد سے سارہ شریف کی موت کے بارے میں تفتیش کرنا چاہتی ہے۔
جہلم کے ضلعی پولیس افسر ناصر باجوہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’سارہ شریف قتل کیس میں عرفان شریف، بینش اور فیصل کے بلیو وارنٹ جاری جبکہ بچوں کے یلو وارنٹ جاری ہو چکے ہیں جو ایف آئی اے کو بھیجے گئے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ عرفان شریف، سوتیلی والدہ بینش اور فیصل کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔
پیر کو جہلم پولیس کے ترجمان مدثر خان نے بتایا تھا کہ ’جہلم کینٹ کے علاقے لوٹا چوک میں عرفان شریف کے آبائی گھر پر چھاپے کے دوران ان کے 12 سالہ بیٹے نعمان، دو چھے سالہ جڑواں بہنوں، حنا اور بسمہ، چار سالہ احسان، اور ڈیڑھ سالہ ازلان کو تحویل میں لے لیا گیا۔
عرفان شریف، بینش بتول اور ملک فیصل پانچ بچوں کے ساتھ 10 اگست کو پاکستان پہنچے تھے جس کے بعد عرفان شریف نے برطانوی پولیس کو سارہ شریف کی موت کی اطلاع دی تھی۔
پس منظر
جہلم کے علاقہ کڑی جنجیل سے تعلق رکھنے والے ملزم ملک عرفان نے 2009 میں برطانیہ میں پولش خاتون اوگلا سے شادی کی جس سے ایک بیٹی اور بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ سال 2017 میں عرفان نے اوگلا کو طلاق دے دی۔ طلاق کے بعد دونوں بچوں کو والد کی تحویل میں دے دیا گیا۔
ملک عرفان اپنی دوسری بیوی بینش بتول اور بچوں کے ساتھ سرے کے علاقہ میں شفٹ ہوا جہاں 10گست 2023 کو بچی کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔
بچی کی موت کے دوسرے دن ہی ملک عرفان برطانیہ چھوڑ کر فیملی کے ہمراہ جہلم پہنچا اور کہیں روپوش ہوگیا۔ برطانوی اخبارات کے مطابق خاندان نے ٹکٹس 9 اگست کو ہی بک کر لیے تھے۔