بااثر شخص نے جعل سازی سے ویسٹرن جہلم(سی بی او) اور پدھری گیم ریزرو رجسٹرڈ کروا لی

0 100

جہلم: محکمہ وائلڈ لائف کے افسران کی سرپرستی بااثر شخص نے جعل سازی سے ویسٹرن جہلم(سی بی او) اور پدھری گیم ریزرو رجسٹرڈ کروا لی، محکمہ وائلڈ لائف کے ایس او پیز کے مطابق غیر قانونی ہے تحفظ جنگلی حیات کی آڑ میں غیرقانونی طور پر سالانہ لاکھوں، کروڑوں کمائے جارہے ہیں ، فرضی کمیٹی ممبران کے دستخط کرکے اکاونٹ سے رقم بھی نکلوانے کا انکشاف ،ہزاروں کنال رقبہ پرائیویٹ گیم ریزرو کیلئے سرکاری کاغذات میں ظاہر کیا گیا، اس میں بھی جعل سازی کی گئی۔

ان خیالات کا اظہار ویسٹرن جہلم اڑیال کنزرویشن کے جنرل سیکرٹری شہزاد اقبال نے اخبار نویسوں سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلیمان خان نامی شخص نے 2010 میں اپنی بیوی اور سسرکے نام سے ویسٹرن جہلم(سی بی او) اور پدھری گیم ریزرو کمیٹی رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کی لیکن عدالت نے حکم ِ امتناعی جاری کرنے سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا کہ 2015 میں سرکاری ملازم ہوتے ہوئے غیرقانونی طور پر اپنے نام سے پدھری گیم ریزرو کا نوٹیفیکیشن جاری کروا لیا۔ جو بعد میں سسر کے نام تبدیل کروایا گیا۔ وہ بھی غلط تھا کیونکہ متعلقہ شخص کا مذکورہ علاقہ کا ہونا اور ذاتی زمین ہونا ضروری ہے دلچسپ بات یہ کہ جن آٹھ موضعات کا 43 ہزار 19 ایکڑ رقبہ ظاہر کیا گیا ان موضعات کا ٹوٹل رقبہ 40 ہزار ایکڑ ہے

انہوں نے کہا کہ 28 اپریل 2020 کو فرضی سی بی او ویسٹرن جہلم کے اجلاس کے زریعے سات ممبران کو تبدیل کیا گیا ، لیکن 2021 کے اجلاس میں پاٹرج بریڈنگ سنٹر کیلئے قیام کا فنڈز ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے سرکار سے لینے کیلئے سلیمان خان نامی شخص نے خود صدارت کی اور جن ممبران کو کمیٹی سے فارغ کیا جا چکا تھا ان کے دستخط کر لیے گئے۔

شہزاد اقبال نے مزید بتایا کہ صدر سی بی او راجہ حامد علی خان کی وفات کے بعد فرضی اجلاس کے ذریعے نیا صدر راجہ حماد علی خان کو نامزد کر دیا گیا جس میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف جہلم محمد عمران بھی شامل تھے، اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب میں ڈی جی آفس لاہور گیا، اس کے علاوہ شکار کروانے کی مد میں حاصل ہونے والی لاکھوں، کروڑوں روپے کی رقم علاقے میں ترقیاتی کاموں، جانوروں کی نشونما اور افزائش نسل میں اضافے کیلئے استعمال کرنے کی بجائے ذاتی جیب میں ڈالی گئیں۔

شہزاد اقبال نے محکمہ وائلڈ لائف کے اعلی افسران محکمہ اینٹی کرپشن اور نیب سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام کیسز کی انکوائری کریں تاکہ معلوم ہو سکے کہ خاندان کے ممبران کے نام منتقل ہونے والی ہزاروں کنال زمین اور بنگلے کیسے حاصل کیے گئے ہیں۔

اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.