جہلم میں پولیس جی ٹی روڈ پر سے خونی کرتب روکنے میں بری طرح ناکام

جہلم: نیشنل ہائی وے اینڈ موٹروے پولیس، پٹرولنگ پولیس جی ٹی روڈ پر سے خونی کرتب روکنے میں بری طرح ناکام، شہر سمیت ملحقہ علاقوں میں ویلنگ و ریسنگ موٹر سائیکلیں تیار کرنے والے مکینکس سرگرم، بیشتر گھرانوںکے بچے موت کی وادی میں داخل ہو گئے، والدین اپنے لخت جگرز کی یاد میں زندگیاں گزارنے پرمجبور، شہر کی سماجی ، رفاعی ، فلاحی ، مذہبی ،شہری تنظیموں کے عمائدین نے نیشنل ہائی وے پٹرولنگ پولیس سمیت ڈی پی او سے ریسنگ و ویلنگ موٹر سائیکل تیار کرنے والے مکینکس کے خلاف کارروائیاں کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق نیشنل ہائی وے پٹرولنگ پولیس اور پنجاب پولیس جی ٹی روڈ پر سے خونی کرتب روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے ، منچلے نوجوان اپنی زندگیوں کی پرواہ کئے بغیر دریائے جہلم پل تا پیر شہاب تک ریسنگ ، ون ویلنگ کے خونی، خطرناک کھیل کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔
موٹر وے پولیس سمیت مقامی پولیس بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، ون ویلنگ اور موٹر سائیکل ریس کے سبب متعددنوجوانوں کی قیمتی جانیں بھی ضائع ہو چکی ہیں، منچلے نوجوان مختلف علاقوں میں سے ٹولیوں کی صورت میں جی ٹی روڈ پر اکھٹے ہوتے ہیں ان منچلے نوجوانوں میں با اثر اور امیر گھرانوں کے بگڑے رئیس زادے اور غریب خاندانوں کے بچے بھی شامل ہوتے ہیں جو اپنی زندگیاں خود اپنے ہاتھوں سے موت کے منہ میں ڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔
جہلم پریس کلب کے سروے میں معلوم ہو ا کہ ون ویلنگ اور موٹر سائیکل ریس اتنی آسان ہو گئی ہے کہ شہر کے اندرونی علاقوں میں جگہ جگہ موٹر سائیکل کے میکینک موجود ہیں جو نوجوانوں کو ون ویلنگ اور ریس کیلئے موٹر سائیکلیں تیار کر کے دیتے ہیں، ان موٹر سائیکلوں کو الٹر ا بائیک کہاجاتا ہے اور انکو تیار کرنے والوں کو الٹرا میکینگ کہا جاتا ہے۔
شہر اور ملحقہ علاقوں کے نوجوان اس خطرناک کھیل کے دوران ایک دوسرے سے بحث مباحثہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کی باقاعدہ ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئرز کی جاتی ہیں ، جس کے نتیجے میں اموات ہوجاتی ہیں، شہر اور ملحقہ علاقوں کے موٹر سائیکل سواروں نے وٹس ایپ پر اپنے اپنے گروپس بنا رکھے ہیں جو پہلے دن اور وقت مقرر کرکے مقررہ جگہ پر پہنچ جاتے ہیں جس سے موٹر وے ، پٹرولنگ پولیس اور ضلعی پولیس پوری طرح آگاہ ہوتی ہے ۔
شہر کے نوجوان جو ریس میں حصہ لیتے ہیں ، ان ریسسزمیں اصل کردار موٹر سائیکل میکینک کا ہوتا ہے، میکینک ریس کی موٹر سائیکل کی تیاری پر لاکھوں روپے وصول کرلیتے ہیں اور پھرجو اس بائیک کو چلاتا ہے اسے رائیڈر کہتے ہیں وہ رائیڈر اپنی زندگی کی پرو ا ہ کیے بغیر اپنے گروپ اوراپنے میکینک کا نام روشن کرنے کے لیے موت کا کھیل کھیلتا ہے جوبعض اوقات جان لیوابھی ثابت ہوجاتاہے۔
موٹر سائیکل کی ریس کے لیے دریائے جہلم تا پیر شہاب جی ٹی روڈ کا انتخاب کیا جاتا ہے اس کے علاوہ نئی تعمیر ہونے والی سڑکیں بھی شامل ہوتی ہیں،موٹر سائیکل کی ریس پر گروپس کے درمیان شرطیں بھی لگائی جاتی ہیں،ون ویلنگ اور ریس کے بعد جب فیصلے کا وقت آتا ہے تو بعض اوقات ان گروپس کے درمیان لڑائی جھگڑا بھی ہوجاتا ہے۔
موٹرسائیکل ریس اور ون ویلنگ پر موٹر وے پولیس اور مقامی پولیس تاحال کوئی ایکشن لیتی نظر نہیں آتی، موٹر سائیکل کے اس خطرناک کھیل کو کھیلنے والوں میں کم عمر بچے شامل ہوتے ہیں، ان بچوں کی عمریں15سے 22سال کے درمیان ہوتی ہیں یہ کم عمر بچے اور نوجوان اپنے گھر والوں سے جھوٹ بول کر موٹر سائیکل کی ون ویلنگ اور موٹر سائیکل کی ریسیں لگاتے ہیں۔
اسکولز اور کالجز کے یونیفارم میں ملبوس کئی بچے اس کھیل میں مگن نظر آتے ہیں، موٹر سائیکل کی ون ویلنگ اور ریس میں کم عمر بچوں کے ساتھ موٹر سائیکل رائڈرز اور میکینک جنسی زیادتی بھی کرتے ہیں، موٹر سائیکل رائیڈر ز کئی شہریوں کو اس کھیل میں زخمی بھی کر چکے ہیں اور کئی شہری جان کی بازیاں بھی ہار چکے ہیں۔
شہریوں نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب، آئی جی پنجاب، آرپی او راولپنڈی ،آئی جی موٹر وے پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ موٹر سائیکلوں کی ون ویلنگ اور ریس لگانے والوں پر پابندی عائد کی جائے اور ساتھ ہی ایسی موٹر سائیکلیں تیار کرنے والے مکینکس کے خلاف فوجداری مقدمات درج کئے جائیں تاکہ موٹر سائیکل سواروں کی اموات میں کمی واقع ہو سکے۔