لاہور ہائیکورٹ نے فواد چوہدری کی بازیابی سے متعلق درخواست خارج کردی

0 21

لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی بازیابی کے لیے دائر درخواست خارج کردی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے فواد چوہدری کی بازیابی کے لیے خلاف دائر درخواست خارج کرتے ہوئے کہا کہ انہیں گرفتار کیا گیا اور ریمانڈ کے لیے لاہور کی متعلقہ عدالت میں پیش کیا گیا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست گزار سے کہا کہ اگر آپ مقدمے کا اخراج چاہتے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ فورم ہے، اگر یہ مقدمہ پنجاب میں ہوتا تو ہم دیکھ سکتے تھے کہ یہ مقدمہ درج بھی ہو سکتا تھا یا نہیں۔

فواد چوہدری کے وکیل نے کہا کہ گرفتاری غیر قانونی ہے لہٰذا عدالت اس گرفتاری کو کالعدم قرار دے، جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میرے سامنے آپ کا یہ کیس نہیں ہے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میں شام سات، آٹھ بجے تک تو عدالت میں بیٹھ سکتا ہوں لیکن لائن کراس نہیں کر سکتا۔

لاہور ہائی کورٹ نے فواد چوہدری کی بازیابی سے متعلق درخواست خارج کر دی۔

اس سے قبل 4 مرتبہ سماعت میں وقفہ آیا، جب ابتدائی طور پر سماعت شروع ہوئی تو جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا تھا کہ فواد چوہدری کدھر ہیں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ فواد چوہدری پنجاب پولیس کی تحویل میں نہیں ہیں، فواد چوہدری اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد آج شام 6 بجے اس عدالت میں پیش ہوں۔

شام 6 بجے سماعت شروع ہوئی تو آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان نے بھی تصدیق کی کہ فواد چوہدری پنجاب پولیس کے بجائے اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں۔

فواد چوہدری کو آج صبح لاہور سے گرفتار کیے جانے کے بعد راہداری ریمانڈ کے لیے لاہور کی کینٹ کچہری میں پیش کیا گیا تھا جہاں پی ٹی آئی رہنما کا راہداری ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں آج ہی اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

ان کے خلاف الیکشن کمیشن کے اراکین کو دھمکی دینے پر اسلام آباد کے کوہسار تھانے میں عہدیدار الیکشن کمیشن کی جانب سے ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی۔

فواد چوہدری کو محکمہ انسداد دہشت گردی اور پولیس کے اہلکار لاہور کی کینٹ کچہری میں لائے جہاں انہیں اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے راہداری ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

فواد چوہدری کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیے جانے پر پی ٹی آئی کے حامی وکلا نے اُن پر گل پاشی کی۔

اس موقع پر فواد چوہدری نے کہا کہ اتنی پولیس لگا دی ہے کہ شاید جیمز بونڈ کو پیش کرنا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے دہشت گرد کی کیٹیگری میں رکھا گیا۔

فواد چوہدری کو لاہور ہائیکورٹ پیش کرنے کا حکم

دریں اثنا فواد چوہدری کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے فواد چوہدری کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

قبل ازیں فواد چوہدری کی گرفتاری کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ میں احمد پنسوٹا ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ فواد چوہدری کی گرفتاری غیر قانونی ہے، ان کو ایف آئی آر تک نہیں دکھائی گئی۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پولیس نے گرفتاری کی وجوہات نہیں بتائیں، فواد چوہدری سپریم کورٹ کے وکیل اور سابق وفاقی وزیر ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ فواد چوہدری کی گرفتاری کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا جائے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے مذکورہ درخواست سماعت کے لیے جسٹس طارق سلیم شیخ کو بھجوا دی تھی۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست پر سماعت کے بعد دوپہر ڈیڑھ بجے تک فواد چوہدری کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

دوپہر 2 بجے سماعت کا آغاز ہوا تو فواد چوہدری کے وکیل اظہر صدیق نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جواد یعقوب کے مطابق فواد چوہدری کو اسلام آباد لے جایا جارہا ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میں ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ بتا سکوں کہ فواد چوہدری کہاں ہیں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ میں جو حکم دیتا ہوں اس پر عمل درآمد کرواتا ہوں، اگر فواد چوہدری اسلام آباد پہنچ بھی گئے ہیں تو انہیں واپس لائیں اور اس عدالت میں پیش کریں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی حکم پر من و عن عملدرآمد ہو گا، مجھے تھوڑا وقت دے دیں۔

بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 30 منٹ کے لیے ملتوی کر دی تھی۔

آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد لاہور ہائی کورٹ طلب

تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی بازیابی کی درخواست پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ فواد چوہدری کدھر ہیں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ فواد چوہدری پنجاب پولیس کی تحویل میں نہیں ہیں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ہدایت دی کہ آئی جی پنجاب کو فوری بلائیں، اس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی پنجاب رحیم یار خان سے لاہور آ رہے ہیں، وہ راستے میں ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا تھا کہ فواد چوہدری اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں، جس پر لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کر لیا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد آج شام 6 بجے اس عدالت میں پیش ہوں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے رجسٹرار کو کہا کہ عدالتی حکم سے آئی جیز کو آگاہ کریں۔

اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے سماعت شام 6 بجے تک ملتوی کر دی تھی اور بعد ازاں سماعت کرتے ہوئے درخواست خارج کردی۔

آئی جی پنجاب اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش

مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہو گئے۔

فواد چوہدری کے وکیل نے نشاندہی کی کہ ان کے مؤکل کو پھر عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، یہ بڑی الارمنگ بات ہے کہ عدالت نے حکم کیا لیکن پھر بھی انہیں پیش نہیں کیا گیا، معزز عدالت کے حکم پر عمل درآمد نہ کرنا افسوسناک ہے۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں رحیم یار خان میں تھا جہاں سگنلز کا بہت ایشو تھا، جب موبائل سگنل آئے تو فواد چوہدری کو پیش کرنے سے متعلق عدالتی حکم ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت میرا ٹریک ریکارڈ چیک کراسکتی ہے، میری کوشش تھی کہ اسلام آباد پولیس سے رابطہ کر سکوں لیکن میرا ان سے رابطہ نہیں ہو سکا، میرا آپریٹر آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی اسلام سے ابھی بھی رابطہ کر رہا ہے۔

عدالت میں اپنے بیان میں آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں کسی عدالت کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا، فواد چوہدری پنجاب پولیس کی تحویل میں نہیں بلکہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں۔

اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جواد یعقوب نے فواد چوہدری کے خلاف درج مقدمے کی کاپی عدالت میں پیش کر دی

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس ایف آئی آر کی بنیاد پر اسلام آباد پولیس نے لاہور کے متعلقہ پولیس اسٹیشن سے رابطہ کر کے گرفتاری کی، لاہور کی مقامی عدالت نے راہداری ریمانڈ پر فیصلہ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری مغوی نہیں بلکہ ان کے وکلا نے ریمانڈ میں پیش ہو کر بحث کی ہے۔

فواد چوہدری کے وکیل نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مغوی فواد چوہدری کو عدالت پیش کیا جائے، میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ عدالت چار بار بلائے اور کسی کو پیش نہ کیا جائے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس سارے عمل میں پولیس کی بدنیتی شامل ہے، کوئی تو وجہ ہے فواد چوہدری کو اس عدالت پیش نہیں کیا جا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری نے جو تقریر کی شام پانچ بجے کی، میڈیا سے بات کرنے پر رات 10 بجے فواد چوہدری کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، اس مقدمے کی تفتیش کب ہوئی پولیس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔

پی ٹی آئی رہنما کے وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری کے خلاف بغاوت کا مقدمہ سیاسی نوعیت کا ہے، پولیس رات کو آئی، انہین کوئی دہشت گرد تو نہیں پکڑنا تھا۔

جسٹس طارق سلیم نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اس عدالت سے کیا چاہتے ہیں، آپ کی استدعا کیا ہے۔

وکیل نے جواب دیا کہ ہم چاہتے ہیں عدالتی حکم پر عملدرآمد ہو اور فواد چوہدری کو اس عدالت میں پیش کیا جائے، ہم چاہتے ہیں فواد چوہدری کی گرفتاری غیر قانونی قرار دی جائے۔

عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ فواد چوہدری کی گرفتاری میں غیر قانونی کیا ہے، انہیں گرفتار کیا گیا اور ریمانڈ کے لیے لاہور کی متعلقہ عدالت میں پیش کیا گیا۔

جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ اگر آپ مقدمے کا اخراج چاہتے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ فورم ہے، اگر یہ کیس پنجاب میں ہوتا توہم دیکھ سکتے تھے کہ یہ مقدمہ درج بھی ہو سکتا تھا یا نہیں۔

فواد چوہدری کے وکیل نے کہا کہ گرفتاری غیر قانونی ہے لہٰذا عدالت اس گرفتاری کو کالعدم قرار دے۔

جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ میرے سامنے آپ کا یہ کیس نہیں ہے، میں شام سات آٹھ بجے تک تو عدالت میں بیٹھ سکتا ہوں لیکن لائن کراس نہیں کر سکتا۔

لاہور ہائی کورٹ نے سماعت کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری کی بازیابی سے متعلق درخواست خارج کر دی۔

راہداری ریمانڈ کی درخواست پر سماعت

راہداری ریمانڈ کی درخواست پر سماعت کا آغاز ہوا تو سابق قزیراطلاعات نے فاضل جج سے ایف آئی آر کی کاپی فراہم کرنے کی استدعا کی، عدالتی حکم پر پی ٹی آئی رہنما کو مقدمے کی کاپی دے دی گئی۔

دوران سماعت تفتیشی افسر عدالت کے روبرو پیش ہوئے، اس دوران پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔

فواد چوہدری نے عدالت میں بیان دیا کہ جو مقدمہ مجھ پر درج ہوا ہے اس پر فخر ہے، نیلسن منڈیلا پر بھی یہی مقدمہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ کہا جا رہا ہے میں نے بغاوت کی، میں نے الیکشن کمیشن سے متعلق جو بات کی سارا پاکستان وہی بات کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سابق وفاقی وزیر اور سپریم کورٹ کا وکیل ہوں، مجھے عزت احترام کے ساتھ ٹریٹ کیا جائے، جس طرح گرفتار کیا گیا وہ مناسب نہیں تھا، مجھے یہ فون کرتے میں خود ہی آ جاتا۔

دوران سماعت عدالت نے فواد چوہدری کے میڈیکل کرانے کی ہدایت کر دی۔

دریں اثنا تحریک انصاف کے وکلا نے فواد چوہدری کی ہتھکڑیاں کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کی حبس بے جا کی درخواست ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہے، جب تک ہائیکورٹ کا فیصلہ نہی آجاتا یہ عدالت راہداری ریمانڈ کی درخواست پر سماعت نہ کرے۔

سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کی گئی جس کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے فواد چوہدری کا سروسز ہسپتال سے میڈیکل کرانے کا حکم دے دیا۔

عدالت کی جانب سے حکم دیا گیا کہ میڈیکل کے بعد فواد چوہدری کو آج ہی اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پولیس کی راہداری ریمانڈ کی درخواست نمٹائے جانے کے بعد پولیس حکام فواد چوہدری کو لے کر عدالت سے روانہ ہو گئے۔

ہتھکڑیاں ہمارا زیور ہیں، آزمائشوں میں پورا اتریں گے ، فواد چوہدری

سماعت کے بعد پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے ویڈیو پیغام میں فواد چوہدری نے کہا کہ یہ مقدمہ الیکشن کمیشن کے خلاف توہین کے الزام میں درج کرایا گیا ہے، الیکشن کمیشن کے یہ رویے ہیں اور کہتے ہیں کہ تنقید بھی نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا ہے، اس ملک میں تو بغاوت فرض ہے، 22 کروڑ عوام سڑکوں پر نکلیں اور بغاوت کریں ورنہ آپ کے بچے بھی اس نظام مین پس جائیں گے۔


انہوں نے کہا کہ آج عمران خان اور تحریک انصاف آپ کے حقوق کے لیے کھڑے ہیں، ہم جیل جا رہے ہیں لیکن یہ ہتھکڑیاں تو ہمارے لیے زیور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ان شا اللہ آزمائشوں میں پورا اتریں گے لیکن یہ عوام کا فرض ہے کہ اس نظام کو بدلنے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔

فواد چوہدری کو لاہور ہائیکورٹ پیش کرنے کا حکم

دریں اثنا فواد چوہدری کی بازیابی کی درخواست پر دوپہر ڈیڑھ بجے تک فواد چوہدری کو لاہور ہائیکورٹ میں پیش کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔

قبل ازیں فواد چوہدری کی گرفتاری کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ میں احمد پنسوتا ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ فواد چوہدری کی گرفتاری غیر قانونی ہے ، ان کو ایف آئی آر تک نہیں دکھائی گئی۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پولیس نے گرفتاری کی وجوہات نہیں بتائیں، فواد چوہدری سپریم کورٹ کے وکیل اور سابق وفاقی وزیر ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ فواد چوہدری کی گرفتاری کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا جائے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے مذکورہ درخواست سماعت کے لیے جسٹس طارق سلیم شیخ کو بھجوادی تھی۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست پر سماعت کے بعد دوپہر ڈیڑھ بجے تک فواد چوہدری کو لاہور ہائیکورٹ میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

صدر اور چیف جسٹس قانون کیلئے کھڑے ہوں، شیریں مزاری

پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری نے لاہور میں فواد چوہدری کی اہلیہ حبا فواد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کو اس طرح گرفتار کرنے کے لیے کون سا قانون اجازت دیتا ہے، ریاستی اداروں کو ایسی کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ قانون کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری نے جمہوریت کے لیے آواز اٹھائی ہے تو آج ان کا حال دیکھ لیں، ریاست یہ حرکتیں کرے گی تو جمہوریت کے لیے کون فرنٹ لائن پر کھڑا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست جو ظلم کررہی ہے اس کے خلاف صدر کو بولنا چاہیے اور اپنے اختیارات دکھانے چاہیے، چیف جسٹس کو بھی قانون کے لیے کھڑے ہونا چاہیے۔

پریس کانفرنس کے دوران فواد چوہدری کی اہلیہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کو اغوا کیے جانے کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے، اگر آپ کو کسی کو گرفتار ہی کرنا ہے تو اس کا ایک باضابطہ طریقہ کار موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ گرفترای کے 2 گھنٹے بعد تک ہمیں علم نہیں تھا کہ فواد چوہدری کہاں ہیں، وزیر اعظم اور نگران وزیر اعلٰی پنجاب سے یہی درخواست ہے کہ اس معاملے کا نوٹس لیں اور میرٹ پر فوری فیصلہ دے کر فواد چوہدری کو رہا کریں۔

فواد چوہدری کی گرفتاری

قبل ازیں پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانی والی ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ ’فواد چوہدری کو درجنوں پولیس، محکمہ انسداد دہشتگردی اور نامعلوم گاڑیوں کے حصار میں کینٹ کچہری کی طرف روانہ کر دیا گیا ہے‘۔


اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ’فواد چوہدری نے آئینی اداروں کے خلاف شرانگیزی پیدا کرنے اور لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے، مقدمے پر قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے‘۔


ٹوئٹر پر جاری بیان میں اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر تھانہ کوہسار میں درج کیا گیا ہے، فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو ان کے فرائض منصبی سے روکنے کے لیے ڈرایا دھمکایا۔

قبل ازیں پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانے والی ٹوئٹ میں یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ فواد چوہدری کو پولیس نے ان کے گھر سے گرفتار کرلیا ہے۔


انہوں نے لکھا کہ امپورٹڈ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے اپنی ایک اور ٹوئٹ میں 2 ویڈیوز بھی شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس کی یہ گاڑیاں فواد چوہدری کو گرفتار کرکے لے جارہی ہیں۔


بعدازاں پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی فواد چوہدری کی گرفتاری کے دعوے کی توثیق کی گئ۔

پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ فواد چوہدری کو گھر کے باہر سے نامعلوم افراد نے گرفتار کر لیا ہے۔

گرفتاری غیر قانونی ہے، عدالتی جنگ لڑیں گے، فیصل چوہدری

دریں اثنا فواد چوہدری کے چھوٹے بھائی فیصل حسین نے بھی اپنی ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ ان کے بڑے بھائی سابق وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین کو کچھ دیر قبل بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑیوں میں نامعلوم افراد نے غیر قانونی طریقہ سے لاہور میں واقع گھر سے اٹھالیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اغوا کنندگان نے وارنٹ دکھائے ہیں، نہ اپنی شناخت ظاہر کی‘۔


فیصل چوہدری نے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فواد چوہدری کو آج صبح ساڑھے 5 بجے گھر کے باہر سے اٹھایا گیا، 4 بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں میں فواد چوہدری کو لے جایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کی لوکیشن کیا ہے ہمیں نہیں بتایا جا رہا، فواد چوہدری پر کون سے ایف آئی آر ہے ہمین معلومات نہیں دی جا رہیں۔

انہوں نے عدالتی کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کی گرفتاری غیر قانونی ہے، عدالتی جنگ لڑیں گے۔

یہ گرفتاری نہیں اغوا ہے، اہلیہ فواد چوہدری

فواد چوہدری کی اہلیہ حبہ فواد نے نجی ٹی وی چینل ’ہم نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ گرفتاری نہیں اغوا ہے، ہمیں کوئی ایف آئی آر نہیں دکھائی گئی، 8 سے 10 پولیس والے گیٹ کھول کر ہمارے گھر کے اندر گھس آئے اور فواد چوہدری کو پکڑ کر لے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ فواد چوہدری کو اس وقت کہاں لے جایا گیا ہے، کم از کم ہمیں بتایا جائے کہ انہیں کس قانون کے تحت اٹھایا گیا ہے، ہم سے کسی نے رابطہ نہیں کیا، بس انہیں 4 ڈالوں میں بٹھایا اور ان کا فون قبضے میں لے کر وہ لوگ چلے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے آئی جی پنجاب سے بھی رابطہ کیا وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں آیا، متعلقہ تھانوں سے بھی رجوع کیا لیکن کسی کو معلوم ہی نہیں ہے کہ ان کو کہاں لے کر گئے ہیں۔

فواد چوہدری کی اہلیہ نے مزید کہا کہ یہ سراسر اغوا ہے کہ آپ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں، لوگ آکر آپ کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، یہ کس طرح کا ملک اور کس طرح کا قانون ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ٹارچر کیا گیا تو ہم اس کی سخت مذمت کریں گے، فواد چوہدری کوئی ایسی شخصیت نہیں ہیں جن کو آپ اٹھا کر غائب کردیں اور ہمیں کچھ نہ بتائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس، وزیراعظم اور تمام عہدیداران سے میری اپیل ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ فواد چوہدری کو کیوں اٹھایا گیا، انہیں کہاں لے جایا گیا ہے، ورنہ پھر ہماری ایف آئی آر درج کرلیں کہ انہیں اغوا کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر

خیال رہے کہ فواد چوہدری کی گرفتاری کی اب تک باضابطہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی ہے، تاہم سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کی شکایت پر پی ٹی آئی رہنما کے خلاف اسلام آباد کے کوہسار تھانے میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

ایف آئی آر میں فواد چوہدری کے ٹی وی انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ’انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک منشی کی ہو گئی ہے، نگران حکومت میں جو لوگ شامل کیے جا رہے ہیں، سزا ہونے تک ان کا پیچھا کریں گے اور حکومت میں شامل لوگوں کو گھر تک چھوڑ کر آئیں گے‘۔

ایف آئی آر کی دستیاب کاپی کے مطابق ’فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے ارکان اور ان کے خاندان والوں کو بھی ڈرایا دھمکایا گیا۔‘

فواد چوہدری کے خلاف مذکورہ ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 153-اے (گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 506 (مجرمانہ دھمکیاں)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 124-اے (بغاوت) کے تحت درج کی گئی ہے۔

پی ٹی آئی کا اظہارِ مذمت

سابق وزیر خارجہ اور رہنما پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی نے فواد چوہدری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’فواد چوہدری کی علی الصبح بغیر وارنٹ گرفتاری اس ملک کی جمہوریت اور قانون کی بالادستی پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا قصور ہے فواد کا؟ کس جرم کے تحت اٹھایا گیا؟

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں مزید کہا کہا ’خدارا پاکستان کے ساتھ کھلواڑ بند کیا جائے ورنہ حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے‘۔

دریں اثنا پی ٹی آئی رہنما حماد اظہار نے کہا کہ فواد چوہدری کو ان کی رہائش گاہ سے نامعلوم افراد نے حراست میں لے لیا۔

لاہور میں عمران خان کے گھر کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کو بغیر نمبر پلیٹ ڈالے میں اغوا کیا گیا، یہ بزدلی ہے، فواد کو ایسے حراست میں لیا گیا جیسے دہشتگرد پکڑے جاتے ہیں۔

حماد اظہر نے کہا کہ گزارش ہے بتائیں فواد چوہدری کو کہاں رکھا گیا ہے، متنازع نگران وزیراعلیٰ کو کیا اس مقصد کے لیے لگایا گیا تھا، بتائیں کہ کیا مارشل لا لگ چکا اور اس کا اعلان باقی ہے۔

حماد اظہر کاکہنا تھا کہ اعظم سواتی کو اٹھایا تھا، کیا اسکی آواز دبالی گئی؟، اس ظلم اور بربریت کو ختم کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر خیمے نصب کر دیئے گئے ہیں، فواد چوہدری کی فوری رہائی نہ ہونے کی صورت میں ہر چوک تحریر چوک بنانے کی وارننگ بھی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما علی زیدی نے بھی پارٹی کے سینیئر رہنما کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس ملک کو انتشار کی طرف دھکیلنے پر تلی ہوئی ہے۔


انہوں نے کہا کہ ’پاکستان ان قانون شکن قانون سازوں اور قانون نافذ کرنے والے کرپٹ افسران کے ہاتھوں لاقانونیت کا شکار ہو گیا ہے‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ شب پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے عمران خان کی گرفتاری کے خدشہ کا اظہار کیا گیا تھا۔

ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ ’اطلاعات ہیں کہ کٹھ پتلی حکومت آج رات چئیرمین عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کرے گی‘۔

ٹوئٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ ’تحریک انصاف کے کارکنان اپنے لیڈر کی حفاظت کے لیے زمان پارک پہنچ رہے ہیں‘۔


قبل ازیں گزشتہ شب لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا تھا کہ موجودہ حکومت میں الیکشن کمیشن کی حیثیت صرف ایک منشی جیسی ہوگئی ہے، الیکشن کمیشن کو فون کیا جاتا ہے اور الیکشن کمشنر کلرک کی طرح اسی وقت سائن کرکے بھیج دیتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ہدایت دی گئی کہ محسن نقوی نگران وزیراعلیٰ ہوگا اور وہ محسن نقوی کے نام پر دستخط کر دیتے ہیں، اگر آپ اتنے کمزور ہیں تو گھر جا کر بیٹھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو راتوں رات مائنس عمران خان کا خیال آجاتا ہے، سارے لوگ یہاں کھڑے ہیں، جس جس نے جیلوں میں ڈالنا ہے ڈال دے، بعد میں ہم بھی دیکھ لیں گے۔

فواد چوہدری کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک کی ویڈیو بھی شیئر کی گئی تھی جہاں پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر پارٹی کارکنان کی بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی۔

اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.