مقامی کسان بدحالی کا شکار

0 30

کسی بھی ملک کی ترقی میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ خصوصاً ایک زرعی ملک جہاں زیادہ تر افراد کا ذریعہ معاش زراعت ہو، پاکستان بھی ایک زرعی ملک ہے۔ چنانچہ یہاں زراعت کی اہمیت مسلم ہے ۔ یہاں تقریباً ستر فیصد آبادی کا بالواسط یا بلا واسطہ دارومدار زراعت پر ہے۔

یہاں افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس اہم پیشے کی بنیادی ضروریات اور ترجیحات کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے اور قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس شعبے میں ترقی تو درکنار کسان کو اہم بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا جارہا ہے ۔ جس سے چھوٹا کسان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، جیسے بوائی سے لیکر کٹائی تک بے شمار مالی اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

باقی علاقوں کی طرح تحصیل دینہ کی مارکیٹ میں کھاد اور اسپرے کا مصنوعی بحران پیدا کر کے منہ مانگے دام وصول کیا جارہے ہیں کیونکہ اس وقت ایک سرکاری ڈیلر کے علاوہ دس پرائیویٹ ڈیلر بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں جن کو کوئی دیکھنے والا نہیں۔

موجودہ مقامی زرعی نظام دو اہم شعبہ جات محکمہ انہار اور زراعت کے دست نگر ہے۔ تحصیل دینہ میں محکمہ زراعت کے دفتر میں نہ بجلی ہے اور نہ پانی نو آسامیوں میں صرف دو لوگ کام کر رہے ہیں ۔ جن کے نہ بجٹ ہے نہ وسائل جس سے مقامی کاشت کاروں کو بنیادی سہولیات بہم پہنچا سکیں۔ بس اپنی مدد آپ کے تحت گزارہ چل رہا ہے۔

محکمہ انہار نے دو سمال ڈیم جن میں تین پورہ اور بڑل بنائے تاکہ ان بارانی علاقوں نکی، پنڈ جاٹہ، کرلہ، ٹھیکریاں، ہڈالہ، نیوجھنگ، پیر بھچر شریف، ساگری، چھنی گجراں، مدوکالس، چک عبد الخالق، ساہو چک، ڈوماں نکودر، پنڈوری کے علاوہ درجنوں دیہات کو سیراب کیا جاسکے اور زیادہ سے زیادہ فصلیں کاشت کی جا سکیں۔

بدقسمتی سے لوکل گورنمنٹ کی عدم دلچسپی سے نالے بدحالی کا شکار ہیں جنہیں مقامی لوگوں نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے اپنی مرضی سے توڑ پھوڑ کا شکار کر دیا ہے جس کی وجہ سے پانی ضائع ہوتا رہتا ہے یا چند بااثر افراد کے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)
اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.