پی ٹی آئی کی مقبولیت اور مقامی سطح پر اختلافات

0 52

اس میں کوئی شک نہیں کہ رجیم چینج کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے بیانیے کو عوام میں بے حد پذیرائی ملی،چیئرمین پی ٹی آئی کے گراف میں حکومت سے باہر نکلتے ہی کئی گناہ اضافہ ہوا، لوگ موجودہ حکومت میں چند ماہ کے دور میں بڑھتی ہوئی ہوشربا مہنگائی، لاقانونیت کو دیکھ کر سابقہ حکومت کے ساڑھے تین سال بھول گئے، شہباز گل، اعظم سواتی پر مقدمات، گرفتاریوں، برہنہ تصاویر، ویڈیوز اور وزیر آباد میں لانگ مارچ پر فائرنگ جیسے واقعات کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ عوامی ہمدردی اور مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔

اس میں دو رائے نہیں کہ موجودہ صورت حال میں اگر الیکشن ہوں تو پی ٹی آئی نہ صرف جیتے گی بلکہ دو تہائی اکثریت سے جیتے گی۔ اگر مقامی سطح کی بات کریں تو جہلم میں بھی چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے،صورت حال یہ ہے کہ اگر گھر کا ایک فرد(ن) لیگ کا متوالا ہے تو اسی گھر کے چار افراد کی حمایت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہے لیکن یہ شہری کی حد تک ہے۔

دیہاتوں میں اب بھی دھڑے اور گروپ بندی ہے البتہ خواتین ووٹرز کا رحجان زیادہ تر پی ٹی آئی کی طرف ہے۔ دیہاتوں میں لوگ اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ کون انکی غمی خوشی میں شریک ہوا،ترقیاتی کاموں سے کسی کو کوئی غرض نہیں، لوگ انا پرستی کاشکار ہیں،کچھ کی خواہش ہوتی ہے متعلقہ تھانہ انکے حوالے کردیا جائے کچھ امیدیں لگا رکھتے ہیں کہ انکی مرضی کے ٹھیکیداروں سے ترقیاتی کام کروائے جائیں لیکن شاید فواد چوہدری ایسی سیاست کے قائل نہیں یہ ہی وجہ ہے کہ کچھ دیہاتوں میں انکے حمایتی فراز چوہدری، فیصل چوہدری اور فواد چوہدری سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔

لیکن بات صرف ووٹرز سپورٹرز کی نہیں اختلافات پی ٹی آئی کے وڈیروں کے مابین بھی شدت اختیار کرتے جارہے ہیں،حسد اور انا پرستی کی جھلک نہ صرف لانگ مارچ کے موقع پر نظر آئی بلکہ ترقیاتی کاموں کے افتتاح اور ہر احتجاج کے موقع پر واضح دکھائی دی،ضلعی جنرل سیکرٹری فراز چوہدری نے اعلی قیادت کی ہدایت پر رجیم چینج سے اب تک 60کے قریب ایونٹ کروائے جو فواد چوہدری یا فراز چوہدری سمیت کسی کی ذات کے لیے نہیں بلکہ پارٹی کے لیے تھے۔

وہ خود کالیں کرکے لوگوں کو اکٹھا کرتے رہے لیکن یہاں پر بھی کچھ پی ٹی آئی کے لوگ لوگوں کو احتجاجی مظاہروں میں شریک ہونے سے منع کرتے رہے،،اگر ریکارڈ اور مظاہروں کی فوٹیج پر نظر ڈالی جائے تو پتا چل جائے گا کونسا عہدہ دار کونسا عوامی نمائندہ کتنے مظاہروں میں کتنے لوگوں کے ساتھ شریک ہوا،،مختلف ایجنسیوں کی رپورٹ بھی چیک کی جاسکتی ہے۔

پی ٹی آئی کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ جہلم میں اختلافات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ ایم پی اے چوہدری ظفر خاموش طبیعت کے مالک ہیں شاید انکے بھی اختلافات ہوں لیکن وہ اظہار نہیں کرتے جبکہ ایم پی اے راجہ یاور کمال،سبرینہ جاوید،سابق صدر ندیم افضل بنٹی اور زاہد اختر متعدد مواقعوں بلکہ پریس کانفرنسز میں اختلافات کا اظہار کرچکے ہیں۔

یہاں تک کہ ایم پی اے راجہ یاور کمال نے تو وزیر اعلی پنجاب پرویز الٰہی لے ساتھ میٹنگ میں جس میں ایم پی اے ظفر اقبال،سبرینہ جاوید،ڈپٹی کمشنر نعمان حفیظ،ڈی پی او ڈاکٹر فہد اور دیگر شریک تھے نہ صرف شکایات کے انبار لگائے بلکہ فواد چوہدری کو موجودہ دور کا سکندر اعظم قرار دیا،اسی میٹنگ میں ایس ایچ او ڈومیلی مظہر شاہ کی بھی وزیر اعلی سیشکایت کرکے تبدیل کروایا گیا۔

پی ٹی آئی جہلم میں اختلافات کے باعث نہ صرف کارکنان پریشان ہیں بلکہ انتظامیہ کو بھی بعض اوقات شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اختلافات اس نوبت تک پہنچ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ہی کچھ لوگ اپنی ہی پارٹی کے جلسوں اور احتجاجی مظاہروں کو چھوٹا بڑا قرار دیکر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جو پی ٹی آئی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے

اب اگر ترقیاتی کاموں پر نظر دوڑائیں تو اسوقت ضلع بھر میں اربوں کے ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع ہے،سولہ ارب سے للہ جہلم دورویہ سڑک،جلالپورشریف کندووال نہر،پنڈدادنخان سے سوہاوہ اور اندرون شہر سے ٹاہلیانوالہ اور دینہ سے منگلا تک نہ صرف مین سڑکیں بلکہ ملحقہ سڑکوں اور دیہاتوں میں گلیوں کی تعمیر جاری ہے،الطاف پارک، دریا کنارے کو بھی خوبصورت بنایا جارہا ہے

اربوں کے ترقیاتی منصوبوں کا فائدہ پی ٹی آئی کو تب ہوگا جب باہمی اختلافات ختم ہوں گے وگرنہ اختلافات کی بات ٹکٹوں کے تقسیم تک جائے گی اور اس میں کچھ لوگوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

پاکستان مسلم لیگ(ن)کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے جو اگلے کالم میں۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)
اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.