نجی تعلیمی ادارے اور ان کےاساتذہ

0 15

نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کی ہوشرباء فیسوں ان کی کتب سمیت والدین پر مختلف قسم کے اخراجات ڈالے جانے پر تو پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت کچھ دکھایا اور لکھا جا چکا ہے مگر مجھ سمیت کسی نے بھی اس بات پر توجہ نہیں دی کہ نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے مردو خواتین اساتذہ کا کس طرح استحصال کیا جا رہا ہے۔

نجی تعلیمی اداروں کے مالکان ماہانہ لاکھوں کی بچت کر رہے ہیں (چند چھوٹے سکولوں کو چھوڑ کر) مگر جن کے دم اور محنت پر یہ ادارے چل رہے ہیں ان کے ساتھ اکثر پرائیویٹ سکولوں میں حد درجہ زیادتی اور معاشی بدمعاشی کی جا رہی ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ اکثریت سکولوں میں کم سے کم آٹھ سے بارہ ہزار ماہانہ تنخواہ دی جا رہی ہے جو سراسر ظلم ہے جبکہ حکومت نے کسی بھی مزدور کی کم سے کم اجرت 35 ہزار ماہانہ مقرر کی ہے اور اگر اسی قانون کو دیکھا جائے تو ان اساتذہ کی تنخواہ ایک مزدور کے برابر بھی نہیں۔

محکمہ تعلیم شاید اس طرف توجہ دینا ہی نہیں چاہتا اور نہ ہی نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور باقی سٹاف کی تنخواہوں کے حوالے سے کوئی جامع حکمت عملی یا قانون بنایا جا رہا ہے۔اب آتے ہیں ایک اور اہم معاملہ پر جس میں اساتذہ و سٹاف کو نہ صرف ذہنی اذیت کا شکار بنایا جاتا ہے بلکہ ان کے ساتھ معاشی بدمعاشی بھی کی جا رہی ہے۔

بیشتر نجی ادارے اپنے اساتذہ کو ماہانہ صرف ایک چھٹی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔اور کچھ سکول تو ایسے ہیں جو یہ سہولت بھی نہیں دیتے، اگر کوئی استاد یا سٹاف میں سے کسی مجبوری کے تحت چھٹی کر لیتا ہے تو اس کی فی دن کے حساب سے تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے جو کہ پہلے ہی بہت کم ہوتی ہے جبکہ سرکاری طور پر ملازمین کے لیے ایک سال میں بارہ سے پندرہ چھٹیاں مختص ہیں۔ صرف یہی نہیں اکثریت سکولوں کی انتظامیہ اور مالکان کسی ٹیچر کے بیمار ہونے کی وجہ چھٹی کرنے پر بھی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے بلکہ کسی قریبی عزیز کی وفات پر بھی یہی کچھ کیا جاتا ہے۔

چند ایک سکول ایسے ہیں جو میڈیکل سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر چھٹی دے دیتے ہیں اور یہ سکول کسی استاد یا سٹاف کی قریبی وفات پر بھی تنخواہ کاٹے بغیر رخصت دے دیتے ہیں۔ موسم گرما کی چھٹیوں میں یہ تعلیمی ادارے بچوں سے ماہانہ فیس وصول کرتے ہیں مگر اکثر ادارے ان چھٹیوں میں اپنے اساتذہ کو تنخواہیں نہیں دیتے،کچھ ادارے گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک ماہ اور کچھ دو ماہ کہ تنخواہیں ادا کرتے ہیں۔

چند سکول اپنے اساتذہ کو آدھی تنخواہ ادا کرتے ہیں اور کچھ سکول تو ایسے ہیں جو اساتذہ کو چھٹیوں میں بھی حاضری کو یقینی بناتے ہیں اور چھٹی کرنے پر تنخواہ کی کٹوتی کی جاتی ہے۔کسی بھی ادارے میں ملازمین کے لیے چائے یا ریفریشمنٹ مہیا کرنا ادارے کی ذمہ داری ہے مگر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثریت پرائیویٹ تعلیمی ادارے لاکھوں کما کر دینے والوں کو ریفریشمنٹ وغیرہ بھی مہیا نہیں کرتے۔بنیادی انسانی حقوق سراسر خلاف ورزی ہے۔

نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتے اس کی وجہ اور مجبوری یہ ہے کہ ملک میں بیروزگاری اور مہنگائی اس قدر زیادہ ہے کہ ان کو نوکری جانے کا خدشہ لگا رہتا ہے اور اگر کوئی اپنے لیے آواز بلند کرتا ہے تو اسے نوکری سے نکال دینے کی دھمکی دی جاتی ہے کیونکہ بیروزگاری کی وجہ سے ہر ادارے کے پاس بہت سے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی درخواستیں موجود ہوتی ہیں اور بخوشی کم سے کم تنخواہ پر بھی کام کرنے کے لیے رضامند ہوتے ہیں۔

کچھ مشہور پرائیوٹ سکولز اپنے اساتذہ کو تنخواہ تو بارہ سے پندرہ ہزار اداکرتے ہیں مگر رجسٹر پر ان سے پچیس سے تیس ہزار تنخواہ پر دستخط کرواتے ہیں۔ کیا محکمہ تعلیم جو کہ تعلیمی پالیسی مرتب کرتا ہے وہ نجی تعلیمی اداروں کے لیے موجود پالیسی اور قواعد و ضوابط پر عملدرآمد نہیں کروا سکتا؟ کسی نجی ادارے کی رجسٹریشن کے وقت جو حکومتی پالیسی دی جاتی ہے اور وہ ادارے اس کو تسلیم کرنے اور اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے باقاعدہ تحریری طور پر حلف نامہ جمع کرواتے ہیں کیا وزارت تعلیم اس حلف نامہ پر عملدرآمد نہیں کروا سکتا؟۔

جب کبھی محکمہ تعلیم کے افسران کسی سکول کے معائینہ اور جانچ پڑتال کے لیے جاتے ہیں تو ان کے سامنے انواع و اقسام کے کھانے رکھ دیے جاتے ہیں اور ساتھ جیب خرچ بھی لفافے میں ڈال کر پکڑا دیا جاتا ہے اور سب اچھا ہے کی رپورٹ لکھ دی جاتی ہےکیا محکمہ تعلیم کے افسران و اہلکار ان تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ سے یہ استفسار نہیں کر سکتے کہ ان کی تنخواہ کتنی ہے اور رجسٹر پر کتنی تنخواہ درج کر کے دستخط کروائے جاتے ہیں؟۔

تعلیم کو کاروبار بنانے والوں نے اعلی نصاب کے نام پر نہ صرف بچوں کے اذہان پر غیر ضروری بوجھ ڈال رکھا ہے بلکہ والدین کا خون پسینہ بھی نچوڑا جا رہا ہے۔ ہزاروں کی ماہانہ فیسوں کے علاوہ بھی مختلف قسم کے اخراجات والدین سے ہی وصول کرتے ہیں مگر ان اداروں میں پڑھانے والے خواتین و حضرات اساتذہ کو نہ صرف انتہائی کم تنخواہیں ادا کرتے ہیں بلکہ ان کی تنخواہوں سے بے جا اور غیر قانونی کٹوتی بھی کرتے ہیں مگر ان کو نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ روکنے والا۔

اس میں قصور ان اساتذہ کا بھی ضرور ہے جو مجبوری کے تحت کم تنخواہ پر فرائض تو انجام دیتے ہیں مگر اپنے حق کے لیے آواز نہیں۔ اٹھاتے جس دن یہ اساتذہ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کو یہ بات باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ ان کی محنت کے بغیر وہ کامیاب نہیں ہو سکتے اس دن ان کا معاشی و نفسیاتی استحصال ہونا ختم ہو سکتا ہے۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)
اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.