میرے فوجی جوان جراتوں کے نشان
تحریر: محمد امجد بٹ

یہ دنیا وہ ہے جس میں ہر یک چیز بکتی ہے، انسان کی عزت بکتی ہے، ایمان کی دولت بکتی ہے، چاندی کے کھنکتے سکوں پہ لیلائے محبت بکتی ہے، ہونٹوں کی حلاوت بکتی ہے، وہ لال گلابی بکتے ہیں۔ وہ ہونٹ عنابی بکتے ہیں، لیڈر یہاں کے بکتے ہیں، انکی تقریریں بکتی ہیں۔
صحافی یہاں کے بکتے ہیں، انکے تحریریں بکتی ہیں۔ ملا یہاں کے بکتے ہیں، انکی تفسیریں بکتی ہیں، ممبر یہاں پہ بکتے ہیں، منبر بھی یہاں پہ بکتے ہیں، تاجر یہاں کے بکتے ہیں، انکی چیزیں بکتی ہیں، تھانے یہاں کے بکتے ہیں، افسر یہاں کے بکتے ہیں۔ انصاف یہاں پہ بکتا ہے، منصف یہاں پہ بکتا ہے، یہاں عدل خریدا جاتا ہے، عادل یہاں کے بکتے ہیں۔
کرسی یہاں پہ بکتی ہے۔ یہاں کرسی والے بکتے ہیں۔ اقتدار یہاں پہ بکتے ہیں۔ اقدار یہاں پہ بکتے ہیں۔ اس قوم کو بیچا جاتا ہے۔ ضمیر یہاں پہ بکتا ہے۔ خمیر یہاں پہ بکتا ہے۔ یہاں ہر بھکاری بکتا ہے۔ یہاں ہر یک بھاری بکتا ہے۔ کھیل یہاں کے بکتے ہیں۔ کھلاڑی یہاں کے بکتے ہیں۔ یہاں مسجد بیچی جاتی ہے۔ یہاں مندر بیچے جاتے ہیں۔ یہاں خون کے سودے ہوتے ہیں۔ یہاں اہلِ ہنر بھی بکتے ہیں۔
اس ملک میں پی ایم سے سی ایم تک کے سفر میں منہ بولی قیمت پر ہر چیز بکاؤ نظر آتی ہے مگر اسکے باوجود ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں، ہم سب کی ہے پہچان، ہم سب کا پاکستان۔ بکو ضرور بکو، ہر یک چیز کا سودا کر لو مگر ایک نعمت سے محروم نہ کرو جس کے حصول کے لئے لاکھوں کے خون کی قربانیاں دیں اور اب تک قربانیوں کا یہ لا متناہی سلسلہ جاری ہے۔
سوچو؟ کچھ تو ہے پھر جس نے اقوامِ عالم میں تمھاری عزت وناموس کو برقرار رکھا ہوا ہے۔کوئی تو ہیں جنکے راتوں کے جاگنے سے تم سکون کی نیندیں پوری کر رہے ہو۔جنہوں نے تمہارے کل کو بہتر بنانے کے لئے اپنا آج قربان کر رکھا ہے۔کوئی تمہاری طرف میلی آنکھ سے دیکھے تو یہ اسکے آنکھیں نکال دیں۔کوئی تمھیں دیکھ کر بھونکے تو یہ اسکا منہ بند کر دیں۔یہ وہی ہیں جن کی ایک رات کی پہرے داری کو اللہ تعالیٰ کئی راتیں جاگ کر عبادت کرنے سے افضل گردانتا ہے۔
ہاں ہاں، یہ وہی ہیں جب دشمن نے طاقت کے نشے میں مست ہو کر کہا تھا کہ ہم فتح کے جھنڈے لہراتے ہوئے دوپہر کا کھانا لاہور جا کر کھائیں گے مگر انکی وجہ سے دشمن کو کھانا کھانے کی بجائے منہ کی کھانی پڑی۔یہی تو ہیں جو سنگلاخ پہاڑوں دریاؤں، میدانوں،صحراؤں اور برف پوش کوپہاڑوں پہ تمہارا سہارا ہیں۔
یارانِ وطن تمھیں کیا ہوا، جو کام ملک کے ابدی دشمن 75 سالوں میں نہ کر سکے وہ اقتدار کی ہوس میں سیاست کا لبادہ اوڑھے ایک گروہ نے کر دیا۔ شہدا ہماری دھرتی کے ماتھے کا جھومر ہیں تم نے ان کی یادگاروں کی بے حرمتی کر کے دشمن سے داد وصول کی، تم نے سیاسی مخالفت کو ملک دشمنی میں تبدیل کر دیا، تم نے تنصیبات، عمارتوں، ایمبولینس، بچوں، سکولوں، ہسپتال، جانور منڈی سمیت مسجد کو جلا ڈالا۔
پاسبانِ وطن پہ غدارانِ وطن انگیلیاں اٹھا رہے ہیں اور ہم انگلیاں منہ پہ رکھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں، کیوں ہم خاموش تماشائی بنے دشمن کو یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ ہمارا دشن ہمارے محافظوں کی طرف میلی نگاہ سے دیکھے اور ہم اپنے ہی محافظوں کی ہمت نہ بندھائیں۔ اٹھو اور یک زبان و یک دل ہو کر دشمن کے ارادوں کو خاک میں ملائیں۔
دیکھو جب دشمن کے ارادے خاک میں مل گئے ، جب امن کی فاختہ گیت گانے لگی تم پھر سے بکنا شروع ہو جانا۔ جو چاہے خریدنا ، جو چاہے بیچنا ۔بکنے والو بکتے رہنا ۔خریدنے والو خریدتے رہنا۔پہلے حالات اور حالت تو بدل لو۔ یقین جانو یہ پیارا پاکستان ہمارا ہے اور رہتی د نیاتک ہمارا ہی رہے گا۔انشاء اللہ
آو مل کر بیرونی اور اندرونی دشمن کا مقابلہ سچے مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے سے کریں، جو منہ اسکے خلاف کھلے ہیں انکو ’’فٹے منہ‘‘ کہیں۔ اپنے سپہ اور سالاروں کے ساتھ کندھا ملا کے کھڑے ہوں۔ پھر دیکھنا کیسے منہ بند ہوں گے ۔دشمن کے خواب کیسے چکنا چور ہوں گے کیونکہ ہمیں اپنی سپاہ اور سپہ سالاروں پہ ناز ہے ۔ ہمیں اپنی آئی ایس آئی پہ ناز ہے جو ہمارے ماتھے کا جھومر ہے، ہم کبھی ان پہ آنچ نہیں آنے دیں گے ۔اور اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر ’’نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری‘‘