غزوہ بدرطاغوتی طاقتوں کے خلاف پہلا مسلح جہاد
تحریر: مولانا امیر محمد اکرم اعوان ؒ

غزوہ البدر انسانی تاریخ میں ظلم کے خلاف مظلوموں کی طرف سے مقابلے کا یہ پہلا بے مثل و بے مثال دن تھامعاشرہ جوروستم سے پرُ تھا کفر وشرک تھا اورہر شخص جس کے پاس کچھ قوت یاطاقت تھی وہ دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے پر تلا ہواتھایہاں تک کہ کمزور آدمی کو پکڑ کر غلام بنا کر بیچ دیا جاتا تھایوں اس کی کوئی حیثیت باقی نہ رہتی۔
کسی کامال لوٹ لینا ،آبرو لوٹ لینا ان کے روز مرہ کے مشاغل تھے شراب ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی دور دور تک عظمت الہٰی کا کوئی نشان نہیں ملتا تھا حضور اکرم ﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا اور کفرو شرک کے خلاف آوازِ حق بلند فرمائی تو تیرہ برس تک مسلسل مکہ مکرمہ میں مسلمانو ں پہ بے پناہ مصیبتیں بیتیں یہاں تک کہ انہیںنے اپنے گھر، مال وجائیدادسب کچھ چھوڑ کر ہجرت فرمائی گئی اور حضورﷺ مدینہ منورہ جلوہ افروز ہوئے ۔
غزوہ بدر کا بنیادی سبب یہ بنا کہ اہل مکہ کو مدینہ کے یہودیوں، منافقین کی طرف سے ،عبداﷲ ابن ابی کی طرف سے یہ اطلاعات پہنچیں کہ آپ نے تو مسلمانوں کو گھروں سے نکال دیا تھا آپ یہ سمجھے تھے کہ یہ بات ختم ہو گئی لیکن وہ تو مدینہ منورہ میں بس گئے ہیں اور انصار نے انہیں جائیدایں بھی تقسیم کر کے دے دی ہیںوہ زراعت، تجار ت اور کاروبار میں مصروف ہیں۔
وہ ایک مضبوط قوم بن جائے گی تمہارے لئے بہت بڑا خطرہ بنے گی لہٰذا اس کا سد باب کیا جائے اس کے لئے انہوں نے مشورہ یہ کیا کہ جتنا سرمایہ کسی کے پاس ہے اسے تجارت پہ لگایا جائے اور اس کے لئے انہوں نے چھوٹی چھوٹی بچیوں کے کانوں سے بالیاں تک اتارلیں کہ سرمایہ جمع کریں، کروڑوں کا سرمایہ اس عہد میں جمع کیا گیا اور ایک تجارتی قافلہ شام کو بھیجا کہ اس سے جتنا منافع آئے گا وہ کسی کو نہیں ملے گا وہ صرف مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لئے خرچ کیاجائے گا۔
وہ قافلہ شام سے اپنی کامیاب تجارت کرکے مکہ مکرمہ واپس ہوا حضور اکرم ﷺ کے پاس اطلاع پہنچ چکی تھی جب اس قافلے نے شام سے آتے ہوئے بدر سے گزرکر مکہ مکرمہ جانا تھا تو حضور ﷺکو اﷲ کی طرف سے حکم ہوا کہ آپ باہر نکل کر ان کفار کا راستہ روکیں اسی لئے یہاں ارشاد ہوتا ہے کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ م بَیْتِکَ بِالْحَقِ اﷲ کریم نے جس طرح آپ ﷺ کو اپنے گھر سے بدر کے لئے جنگ بدر کے لئے غزوہ بدر کے لئے نکالا عین انصاف تھا عین حق تھا اس سے پہلے کہ قاتل تیاری کر کے مال اسباب لے کر مسلمانوں کو قتل عام کرنے کے لیے چڑھ دوڑیںاس سبب کو روکنا عین حق تھا عین انصاف تھا۔
سو فرمایا جس طرح آپ کے پروردگار نے آپ ﷺ کو آپ کے گھر سے حق کی تدبیر کے ساتھ انصاف کو زندہ رکھنے کے لئے مظلوموں کی حفاظت کے لئے ظالموں کی قوت توڑنے کے لئے آپ ﷺ کو آپ کے دولت کدے سے نکالا وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِھُوْنَ (الانفال : 5) اور مومنوں کی ایک جماعت ایسی تھی جو اسے گراں سمجھتی تھی لَکٰرِھُوْن انہیں یہ پسند نہیں تھا اس پر بعض لوگوں نے جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہلاتے ہیں اورمسلمان عالم ہونے کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں۔
خصوصاً صحابہ کرامؓ کے اس جملے پر جو قرآن نے فرمایا مومنوں میں ایک ایسی جماعت تھی جو اس کو پسند نہیں کرتی تھی اس پر بڑ ے اعتراض کئے ہیں کہ جب حضورﷺ نے فرمایا جنگ ہو گی تو یہ جان بچاتے تھے یا معاذاﷲ، ڈرتے تھے یایہ تھا وہ تھا یہ ساری باتیں فضول ہیں جن لوگوں نے پسند نہیں فرمایا ان کی وجہ یہ تھی کہ وہ محبت کرتے تھے اپنے نبی ﷺ سے اور ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔
وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ نبی کریم ﷺ کو لے کر اہل مکہ کے مقابلے میں چلے گئے تو وہ ایک بڑا لشکر لے آئیں گے جو مسلح بھی ہو گا وہ لوگ جنگجو بھی ہوں گے تعداد بھی زیادہ ہو گی تو ایسا نہ ہو کہ حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی کو نقصان پہنچ جائے اگر ایسا ہوگیا تو یہ مشن محمدی کہ حضور ﷺ کو اﷲ نے کائنات کے لئے مبعوث فرمایا ہے ،یہیں ٹھپ ہوجائے گا۔
اس رائے کی تائید میں نبی کریم ﷺ نے خودبدر میں دعا فرماتے ہوئے فرمائی اورفرمایا یا اﷲ اگر یہ لوگ آج یہاں مارے گئے تو قیامت تک کوئی تیرا نام لینے والا نہیں ہوگا او کما قال رسول اﷲ ﷺ فرمایا آپ کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے میں سارے کا سارا اسلام لے آیا ہوں یہ تین سو تیرہ بندے نہیں ہیں اب جن بندوں کو اﷲ کانبیﷺ مجسم اسلام کہہ رہا ہے اﷲ کا رسولﷺ جو وحی الہٰی کے بغیر لب مبارک نہیں کھولتا۔
صحابہ کرامؓ کیوں اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ مبادا ایسا نہ ہو کہ حضور عالی ﷺ کو کوئی گزند پہنچ جائے اگر آپ ﷺ شہید ہوجاتے ہیں تو یہ مشن یہیں ختم ہو جائے گا جس کے لئے ہجرت کی گئی جس کے لئے تکالیف اٹھائی گئیں جس کے لئے تیرہ سال مکہ مکرمہ میں جہان بھر کے دکھ برداشت کئے وہ تووہیں ختم ہوجائے گا پھر اس سارے کا کیا حاصل حتیٰ کہ وہ یُجَادِلُوْنَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَاتَبَیَّنَ کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ وَھُمْ یَنْظُرُوْنَ(6)
جب صحابہ کرام ؓ نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارا اہل مکہ کے مقابلے میں کھلے میدان میںجانا کھلی آنکھوں موت میں جانے کے متراف ہے تو حضور ﷺ سے وہ عرض کرتے تھے کہ اے حبیب کبریا ﷺیہ خطرہ نہ لیا جائے آپ ﷺ تشریف نہ لے جائیں یہ تو کسی نے نہیں کہا کہ آپ جائیں گے تو میں گھر بیٹھوں گا بلکہ کچھ ایسے بچے بھی شامل تھے جو بدر میں شہید بھی ہوئے ایک بچے کو حضور ﷺ نے فرمایا تمہاری ابھی مسیں بھی نہیں بھیگیں تمہاری عمر کم ہے تمہیں جنگ کی اجازت نہیں دیتا تو وہ رو پڑاا ور اتنے دردناک طریقے سے رویا کہ حضور ﷺ نے فرمایا اچھا ٹھیک ہے تمہیں اجازت ہے آ جاؤ۔
دوسرا آیا آپ نے منع فرمایا اس نے بڑا اصرار کیا بڑی منتیں کیں اﷲ کے رسول ﷺ مجھ پر کرم فرمائیں اس کے والد نے اسے روکا اس نے والد سے کہا کہ ابا جان! آپ مجھے جنت میں جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتے کیوں مجھے جنت کے راستے سے روکتے ہیں ؟ حضور ﷺ نے اسے بھی اجازت دے دی جب تیسرا بچہ آیا تو وہ ان دونوں سے ذرا کمزور تھا اس نے بھی اصرار کیاتو حضور ﷺ نے فرمایا بھئی نہیں اس نے عرض کی یا رسول ﷲﷺ یہ جس بچے کو آپ نے اجازت د ی ہے میں اسے کشتی میں گراسکتاہوں میں اس سے تکڑا ہوں۔
آپ ﷺ نے فرمایا اچھا کُشتی کرو جب وہ کُشتی کرنے لگے تواس کے کان میں کہا میں جانتا ہوں تو مجھ سے تکڑا ہے پر مجھے گرانا نہیں مجھ سے گر جانا کہ مجھے بھی جہاد پرجانے کی اجازت مل جائے یعنی ذوق شہاد ت کا یہ عالم تھا کہ نو عمربچے، و نوجوانوں سب ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لینے کے خواہش مند تھے اور پھر انہی دو بچوں میں سے ایک خود بھی شہید ہوگیا دوسرا غازی بنا اور یہی ابوجہل کے قاتل بھی تھے۔
میدان بدر میں انہوں نے ایک صحابیؓ سے پوچھا چیچا جان ابو جہل کون ہے؟ سنا ہے وہ نبی کریمﷺ کی توہین کرتا ہے اس نے کہا بھتیجو تم ابو جہل کو جان کر کیا کرو گے؟ کہنے لگے ہم مقابلہ کریں گے دیکھیں گے کہاں تک جاتا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں میں حیران رہ گیا یہ نو عمر بچے ہیں بارہ،چودہ،پندرہ سال کے کیا کریں گے ؟ ابوجہل ایک شاطر جنگجو پرانا جرنیل ہے لیکن تب تک ابو جہل گھوڑے پہ نظر آیا تو میں نے انہیں دکھایا کہ و ہ ابو جہل ہے وہ فرماتے ہیں کہ وہ باز کی طرح اس پر جھپٹے اس سے لڑے ،ان میں سے ایک شہید ہوگیا لیکن ان دونوں نے ابوجہل کو گھوڑے سے مار گرایا۔
صحابہ کرامؓ اس بات پر بحث کرتے تھے کہ وہ دیکھتے تھے کہ اہل مکہ کے مقابلے میں اس بے سروسامانی کی حالت میں جانا کہ کُل افرادی قوت 313 مجاہد تیار ہوسکے ان کے پاس سواری کے لئے ستر اونٹ تھے یعنی ستر سواریاں تھیں آٹھ زریں تھیں اور گیارہ تلواریں تھیں یہ اسلحہ تھا صبح شام کا راشن پانچ پانچ کھجوریں فی کس ملتی تھیں یہ جنگ رمضان المبارک میں ہوئی اور حضور ﷺ نے جنگ کے دن افطاری کا حکم دیا کہ آج روزہ نہ رکھو جو شہید ہوگیا وہ جنت میں جائے گا جو غازی بنا وہ بعد میں قضا کرلے گا لیکن عین دوران جنگ روزہ نہ رکھے حضورﷺ نے رخصت دے دی تو پانچ پانچ کھجوریںصحابہ ؓمیں تقسیم کی گئیں۔
صف بندی کے وقت، ایک نوجوان صحابیؓ کو جب کھجوریں دی گئیں تو اس نے سوال کیا یا رسول اﷲ ﷺ اگر آج میں مارا گیا توکیا جنت جاؤں گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایابے شک تو اعلیٰ درجے کا شہید ہو گا اورجنت جائے گا تو اس نے وہ کھجور یں وہیں پھینک دیں اس نے کہا پھر جنت میں جا کر بھوک مٹائیں گے ان کھجوروں سے ہی ساری عمر پیٹ بھرا ہے اب بھی یہی کھائیں جنت میں جا کر کھانا کھائیں گے اور واقعی وہ غزوہ بدر میں شہید ہوگیا ۔
جب اس مشورہ پر اصرار ہوا تو نبی کریم ﷺ نے اثنائے سفر میں مہاجر و انصار کو جمع کر کے خطاب فرمایا لوگو! میں اپنی مرضی سے نہیں نکلا مجھے وحی الہٰی سے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس مقابلے کے لئے نکلوں جب حضورﷺ نے یہ فرمایا اور پوچھا کہ اب تمہارا کیا مشورہ ہے؟ سب سے پہلے مہاجرین میں سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ بولے پھر فاروق اعظم ؓ ان کے ساتھ کھڑے ہوئے انہوں نے کہا یا رسول اﷲ ﷺ جب اﷲ کا حکم ہے بات ختم ہو گئی مشورہ کس بات کا؟ جب اﷲ کا حکم ہے ہم آپ کے خادم، آپ کے ہمرکاب ہیں۔
حضورﷺ نے انصار سے پوچھا ایک انصاری نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اﷲ ہم موسیٰ علیہ السلام کی امت کی طرح نہیں کہیں گے کہ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ آپ جائیں آپ اور آپ کا پروردگار لڑیں اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ (المائدہ : 24 ) ہم یہاں بیٹھے ہیں یہ جملہ ہم نہیں کہیں گے آپ جہاں جائیں گے ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں اورلڑیں گے۔
حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ عنہ انصار کے سردار تھے وہ کھڑے ہوئے انہوں نے کہا یا رسول اﷲ جب ہم آپ پر ایمان لائے تو ہمیں یہ روز روشن کی طرح واضح تھا کہ دنیا کا سارا کفر ہمارے خلاف ہو جائے گا اب ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں آپ اگر سمندر میں گھوڑے دوڑا دیں تو ہمیں ہمرکاب پائیں گے آپ جہاں تک چلے جائیں گے ہم آپ کے ساتھ جائیں گے جہاں آپ ہوں گے آپ سے پہلے ہم اپنی جان پیش کریں گے مشورے کی بات گزر گئی جب اﷲ کا حکم ہے مشورہ ختم ہوگیا۔
پھر حضور ﷺ نے فرمایا جماعتیں دو ہو گئیں ہیں قافلے والوں کو بھی یہ سن گن پہنچ گئی کہ مسلمان مدینے سے نکل پڑے ہیں تو وہ میدان بدر کو چھوڑ کر بدر سے مغرب کی طرف پہاڑیاں ہیں جن کے سامنے میدان بدر ہے ان پہاڑیوں کے پیچھے قریب ہی سمندر ہے تو وہ ساحل سمندر کے محفوظ راستے کی طرف ہو گئے اور ایک تیز رفتار قاصد کو مکہ مکرمہ روانہ کردیا اس نے مشرکین مکہ کو کہا کہ قافلے کو بڑا خطرہ ہے تو مشرکین مکہ بڑے کروفر سے تیار ہوئے انہوں نے ایک ہزار کا لشکر جرار، بے شمار اسلحہ ،گھوڑے ،اونٹ کھانے کے لے خوراک سارا انتظام کرکے نکل پڑے مسلمانوں کو بھی خبر ہو گئی کہ لشکر مکہ سے بھی آرہا ہے۔
تو حضورﷺ نے فرمایا اﷲ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وَاِذْ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّھَا لَکُمْ ان دو لشکروں میں سے ایک لشکر پر آپ کو فتح دوں گا فرمایا ایک لشکر تمہارے ہاتھ آ جائے گا وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُم توتب بھی صحابہ کرام کا خیال یہ تھا کہ قافلہ ہاتھ آجائے جو کم مسلح ہے وہ قافلہ بھی خالی تو نہیں تھا اس کے ساتھ قافلے کی حفاظت کے لیے ستر مسلح افراد تھے ستر سے صحابہؓ کی عددی قوت زیادہ تھی تو صحابہ ؓ کا دل یہ چاہتا تھا فرمایا تم چاہتے تھے جو بغیر اسلحہ کے ہے وہ تمہارے ہاتھ آ جائے وَیُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰۃٖ لیکن اﷲ جل شانہ یہ چاہتے تھے کہ حق کو اپنے فرمان سے قائم کر دیں اور دنیا کو دکھا دیں کہ حق ہی غالب ہوتا ہے اور باطل مغلوب ہوتا ہے خواہ اس کے پاس جتنے وسائل ہوں دنیاوی اسباب ہوں شان وشوکت ہو لیکن فتح حق کی ہوتی ہے۔
اﷲ یہ بات ظاہر کرنا چاہتے ہیں وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ(۷) اور اﷲ یہ چاہتا تھا کہ کافروں کا جو یہ زعم ہے اور جس طرح یہ تکبر میں مبتلا ہیں ان کو ایسا ذلیل کیا جائے کہ ان کے دعویٰ کی جڑ ہی کٹ جائے اور پوری دنیا دیکھ لے کہ حق کس کو نصیب ہے ؟تاکہ دنیا کو دین نصیب ہولوگ اسلام کی طرف مائل ہوں اور جو رعب اہل مکہ کا ہے اور عرب کے بے شمار قبائل اس انتظار میںتھے کہ دیکھیں ان دو نوں میں سے کون غالب آتا ہے؟
اﷲ ہر بات جانتا ہے اﷲ نے فرمایا اﷲ چاہتا تھا کہ اپنے فرمان سے حق کو فاتح کر ے واضح کردے اور کافروں کی جڑ ہی کاٹ دے ان کی شان وشوکت خاک میں ملا دے جب حضور اکرم ﷺ نے یہ خبر صحابہ ؓ کو دی توآپ ﷺ نے بدر میں وہ جگہیں بھی صحابہ کرام ؓ کودکھلائیں تفاسیر میں ملتا ہے کہ حضور ﷺ نے ایک ایک کافر کے قتل کی جگہ دکھا دی کہ یہاں فلاں کافر قتل ہوگا یہاں فلاں کافر قتل ہوگایہاں فلاں سردار ماراجائے گااس کے بعد فلاں قتل ہو گا۔
جنگ کے بعد صحابہ ؓنے دیکھا کہ ان کے لاشے انہی جگہوں پر پڑے تھے جن کی حضور ﷺ نے باذن الہٰی خبر دی تھی چونکہ اﷲ نے حضور ﷺ کو خبردے دی تھی کہ آپ ﷺ کو فتح ہو گی اہل مکہ کے چوٹی کے چیدہ چیدہ شہسوار،نوجوان اور سرداروں میں سے ستر کھیت رہے اور ستر مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہو گئے جو قاصد مکہ مکرمہ اطلاع دینے گیا تھا ،نے عربوں کے قائدے کے مطابق پہلے تو اپنی قمیض الٹی کی پھر قمیض کا گریبان پھاڑ دیا پھر اپنی سانڈنی کا ناک چیر دیا اور الٹی طرف یعنی پیچھے کی طرف مونہہ کرکے سواری پر بیٹھ گیا شہر میں داخل ہونے سے پہلے بڑا شور کیا مکہ والوں تم برباد ہو گئے فلاں بھی مارا گیافلاں بھی مارا گیا فلاں بھی مارا گیا ستر نام تو اس نے مرنے والوں کے گنے ستر قیدیوں کے گنے تو پورے مکہ مکرمہ میں کہرام مچ گیا۔
کوئی گھر ایسا نہیں تھا جہاں سے شور نہیں اٹھا تو فرمایا جب اﷲ نے آپ سے وعدہ کیا کہ دو جماعتوں میں سے ایک جماعت تمہارے ہاتھ آجائے گی تو آپ لوگ چاہتے تھے کہ جو غیر مسلح یا کمزور جماعت ہے یعنی قافلے والے ہیں وہ ہاتھ لگیں لیکن اﷲ کریم چاہتے تھے کہ حق کو اپنے فرمان سے غالب کریں اور باطل کا باطل ہونا عملاً ثابت فرما دیں دشمن اس سے ناخوش ہی ہوں اور یہ عجیب بات ہے کہ 313 بندے جن کے پاس کل ستر سواریاں ہیں اور ان کے پاس آٹھ زریں ہیںاور گیارہ تلواریں ہیں وہ ایک لشکر جرار کے ساتھ جو آزمودہ کار جنگجوؤں کاہے جن کے پاس اسلحہ بھی وافر ہے کس طرح لڑی؟
اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ عریش بدر وہ مقام ہے جہاں عارضی سا سایہ بنا دیا گیا تھا آج اس مقام پر مسجد بنا دی گئی ہے وہاں آپ دعا فرما رہے تھے کہ یا اﷲ یہ تین سو تیرہ بندے، یہ سارے کا سارا اسلام ،میرا سارا سرمایہ ہے ان کی مدد فرما اگر یہ یہاں کھیت رہے تو قیامت تک کبھی کوئی تیری عبادت نہیں کر پائے گا اور آپﷺ نے اس آہ و زاری سے دعا فرمائی حتیٰ کہ دوش مبارک سے ایک طرف سے چادر مبارک گر گئی اور سیدنا ابوبکر صدیق خدمت عالی میں حاضر تھے۔
آپ ؓ نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ اﷲ نے آپ کی دعا سن لی ہے اب بس کر دیجئے آپ نے دعا کر دی یہ کام ہو گیا اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ جب آپ اپنے پروردگار سے دعا فرما رہے تھے فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اس نے آپ کی دعا قبول فرما لی دعا مومن کا بہت بڑا ہتھیار ہے اور ہرکام کے لئے دعا کرنی چاہئے لیکن ایک بات یاد رکھیں صرف دعا سے کام نہیں ہوتا دعا کرنے کا طریقہ وہ ہے جو نبی کریم ﷺنے بتا دیا کہ جو تین سو تیرہ خدام میسر تھے انہیں لیا ،سواری کے جو اسباب میسر تھے وہ لئے جتنا اسلحہ میسر تھا وہ لیا 150 کلومیٹر مدینہ سے چل کر مقام بدر میں تشریف لائے وہاں اعلیٰ مقام منتخب کیا۔
پانی کے چشمہ پر قبضہ فرمایا پھر بدر کے دن ان 313 کو صف آرا کیا حضور ﷺ کے دست اقدس میں چھڑی تھی جس سے آگے سے پیچھے اور پیچھے سے آگے پوری صف بندی خود حضورﷺ نے کرائی سارے اسباب مکمل کر کے عریش بدر میں تشریف لے گئے کہ اﷲ کی مدد سے کام ہوگا ،دعاسے ہوگا لیکن پوری دیانتداری سے پوری محنت کرکے کام کریں یہی طریقہ حضور ﷺ نے تعلیم فرمایا کہ اسباب پورے فرما کر عریش بدر میں جب آپ ﷺ نے دعا فرمائی اﷲ نے فرمایا میںنے قبول کرلی۔
اَنِّیْ مُمِدُّ کُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ(9) جب آپ نے دعا فرمائی اﷲ نے فرمایا دعا قبول ہو گئی اب میں آپ کے لئے اور آپ کے خدام کے لئے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں جو صف در صف ایک دوسرے کے پیچھے چلے آتے ہیں۔ صف در صف جسے فوجی زبان میں کہتے ہیں (Formation) میں چلے آتے ہوں گے چار چار ،پانچ پانچ کی ٹولیاں بنا کر جس طرح فوجی آگے پیچھے چلتے ہیں اسے (Formation) کہتے ہیں اور قرآن نے کہا مُرْدِفِیْن کہ ایک دوسرے کے پیچھے صف در صف آپ ﷺکی خدمت میں چلے آتے جائیں گے ۔
بارالہٰا !فرشتے تو تیری وہ مخلوق ہے کہ ایک ایک فرشتے نے زمین کے تختے الٹ دئیے ایک ایک فرشتے نے قوموں کی قوموں کو تباہ کردیا ایک ایک فرشتے نے پہاڑوں کو اُلٹ دیا تو یہاں ایک ہزار فرشتے کیا کریں گے ؟ فرمایا میں جب عذاب بھیجتا ہوں تو ایک فرشتے کو حکم دوں تو وہ کافی ہے لیکن یہ تو میرا نبی ﷺ دعا مانگ رہا ہے مانگنے والے کا مقام بھی تو دیکھو کام ایک فرشتہ بھی کرسکتا ہے لیکن عظمت نبوت یہ ہے کہ ایک ہزار بھیجے پھرفرمایا تین ہزار اور بھیجیں گے کہ جوآپ ﷺکے مبارک ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہیں ان کی عظمت بتانے کے لیے ان کی شان بتانے کے لئے ان کا مقام بتانے کے لئے میں نے ایک ہزار فرشتہ بھیج دیا پھر مزید تین ہزار اور بھیج دئیے فرمایا وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشْرٰی وَلِتَطْمَئِنَّ بِہٖ قُلُوْبُکُمْ وَمَاالنَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِاللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(10) اوریہ نزول ملائکہ جو تھا ،فرشتوں کا آنا جو تھایہ تو آپ کے لئے فرشتوں کا آنا ہی جیت کی ضمانت ہو گئی فتح کی ضمانت ہو گئی۔
وَلِتَطْمَئِنَّ بِہٖ قُلُوْبُکُمْاور تا کہ ان سے تمہارے دل قرار پکڑیں اصل جو بات ہے ایمان اور اسلام کی کہ دل اس بات پر جم جائیں قرار پکڑیں جتنی عبادات ہیں ان کا حاصل کیا ہے ؟ آپ نماز ادا کرتے ہیں یہ فرشتے کے اوصاف میں سے ہے عبادت کرنا آپ رکوع کرتے ہیں فرشتے کے اوصاف ملکوتی میں ہے آپ سجدہ کرتے ہیں اوصاف ملکوتی میں سے ہے آپ التحیات بیٹھتے ہیں اوصاف ملکوتی میں سے ہے تسبیح پڑھتے ہیں اوصاف ملکوتی میں سے ہے روزہ رکھتے ہیں اوصاف ملکوتی میں سے ہے زکوٰۃ دیتے ہیں حج اداکرتے ہیں جہا د کرتے ہیں یہ سب اوصاف ملکوتی ہیں ان سے فرشتوں جیسی اوصاف نصیب ہوتی ہیں اور اوصاف ملکوتی میں ہے کہ دل کو اطمینا ن نصیب ہوتا ہے اگر کوئی عبادت کرتا ہے اور اﷲ کے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں تو فرشتوں کا پاس ہونا بھی اطمینان قلب اور سکون قلب کا ایمان کی زیادتی کا سبب بنتا ہے۔
اطمینان قلب کسے کہتے ہیں ؟کہ قلب ارشادات نبوی پر جم جائے آخرت ، قرآن، فرشتوں اور ضروریات دین کو خلوص سے تسلیم کر لے تو فرمایا یہ فرشتوں کا نزول محض کفار کے قتل کے لئے نہیں ہے اس کے کئی اور بڑے فائدے ہیں ایک تو ان کا نزول آپ کے لئے اور آپ کے خدام کے لئے فتح کی خوشخبری ہے جنگ نہیں ہوئی لیکن فرشتے آ گئے مفسرین نے لکھا ہے کہ شیطان ایک عرب سردارجو بہت مشہورجنگجو تھا اور اس کا قبیلہ بھی بڑا جنگجو تھا اُس کی شکل بنا کر اور اپنے چیلے فوجی ساتھ ملا کر اہل مکہ کو اپنی حمایت کا یقین دلایا چونکہ جب قافلہ ایک طرف سے نکل گیا تھا تو مکے کے لشکر میں بھی شور پڑگیا کہ قافلہ تو بچ کر نکل گیا ہے تو اب جنگ خواہ مخواہ کرنی ہی ہے بندے اپنے مروا بیٹھیں گے ان کے بھی مریں گے تو اس سے کیاہوگا ؟
تو اب جنگ نہ کہ جائے تو ابو جہل اور اس کے ہمنوا کہتے تھے کہ جب مکہ سے اتنے دور مدینہ منورہ اور مکہ کے درمیان آ گئے ہیں تو اب ہم لڑے بغیر واپس نہیں جائیں گے تاکہ مسلمانوں کا قصہ اب پاک کر دیا جائے ہماری بڑی تیاری ہے بڑالشکر ہے یہ بحث ہورہی تھی کہ ابلیس نے روپ دھار کر ان سرداران قریش سے کہا کہ یہ جنگ ضرور ہوگی میں فلاں سردار ہوں میں بھی تمہارے ساتھ ہوں یہ میرا لشکر تمہارے ساتھ ہے چنانچہ جنگ کرنے کا فیصلہ ہو گیا جب بدر میں صفیں بن رہی تھیں تو ابلیس چھوڑ کر بھاگنے لگا ابو جہل نے کہا تمہیں بھاگتے ہوئے شرم نہیں آتی یہاں تک ہمیں بھی لائے ہو تو اس نے کہا میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تمہیں نظر نہیں آ رہا اسے تو نظر آرہا تھا کہ فرشتے نازل ہو رہے ہیں اس نے کہا مجھے تو دکھائی دے رہاہے جو تمہیں تم دکھائی نہیں دے رہا میں بھاگ رہاہوں تم جانو تمہارا کام جانے فرمایا فرشتوں کاآنا ایک تو بشارت تھی فتح کی اور دوسرا قرب ملائکہ سے خدام نبویﷺ کے قلوب کو اطمینان اور قوت ملے گی ۔
میدان بدر میں مشرکین مکہ نے بلندی کی طرف جو زمین پر پڑاؤ لگا لیا اور قبضہ کر لیا مسلمان تھوڑے سے نشیب میں آ گئے جہاں زیادہ ریت تھی اور اس میں پاؤں دھنس جاتے تھے تو صحابہ کرام ؓنے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ اگر یہ جگہ وحی الہٰی سے متعین نہیں کی گئی تو ہمیں آگے بڑھ کر بدر کے پانی کے کنویں پر قبضہ کرلینا چاہیے وہ جگہ نسبتاً بہتر ہے چنانچہ اسلامی لشکر نے آگے بڑھ کر پانی کے گرد ڈیرہ ڈال لیا پانی پر قبضہ کر لیا مقابلے سے پہلے اﷲ کریم نے رات کو عجیب انتظام فرمایا ایک تو اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنْہ ایک تو یہ کرم فرمایا کہ مسلمانوں پر نیند کی قسم غنودگی سی بھیج دی جس نے انہیں بہت اطمینان و سکون بخشا اور کفار کے لشکر کی کثرت اوران کے ہتھیاروں کی سجاوٹ اور ان کی طاقت ان کے خیال سے نکل گئی اﷲ پر ان کا بھروسہ مزید بڑھ گیا ان کو ایک ایسی نیندطاری ہو گئی کہ بدن پر سکون ہو گئے اور حواس جاگ رہے تھے۔
ادھر ادھر سے اور اس کا فائدہ یہ ہوا اَمَنَۃً مِّنْہ اپنی طرف سے انہیں امن و سکون عطا کر دیا ان کے دل مطمئن ہو جائیں اس بات سے بے نیاز ہو جائیں کہ مشرکین کی تعداد کتنی ہے ؟ وہ لڑاکے کتنے ہیں؟ یا ان کے پاس اسلحہ کتنا ہے؟ اس کی پرواہ نہ رہے بلکہ اﷲکی مدد پر بھروسہ اور اﷲ کی ذات پر بھروسہ مضبوط ہو جائے اور ثابت قدمی عطا ہوئی۔ساتھ دوسری مہربانی یہ فرمائی وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَآئً آسمانوں سے پانی اتار دیا بارش برسادی چونکہ چشمے کا پانی اتنا نہیں تھا کہ سارے لوگ یا کچھ لوگ غسل بھی کرسکیں اور آرام سے وضوکریں پانی تھوڑا تھا پینے کے استعمال کرنے کے لئے تھا اﷲ کریم نے بارش بھیج دی اس سے دو بڑے کام ہوئے ایک تو جو جگہ مشرکین مکہ کے پاس تھی وہاں چونکہ مٹی تھی اس میں کیچڑ ہوگیا اور دلدل بن گئی جہاں لشکر اسلام مقیم تھا وہاں ریت تھی وہ بارش سے جم گئی اور مضبوط ہو گئی پھر پانی وافر جمع ہوگیا وہ نچلی جگہ تھی ڈھلان تھی پانی سے بھر گئی جنہوں نے غسل کرنا تھا انہوں نے غسل کیاجو وضو کرنا چاہتے تھے انہوں نے وضو کیا۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ شگاگو میں مزدوروں نے جلوس نکالا ان پر فائرنگ ہوئی آٹھ مزدور مارے گئے مارنے والے اور مرنے والے بھی مسلمان نہیں تھے مارنے والے بھی غالباً عیسائی تھے اور مرنے والے بھی عیسائی تھے ان کے اپنے ملک کی بات تھی لیکن ہمارے اسلامی ملک میں بھی شگاگو کے دن کے واقعہ پر چھٹی ہوتی ہے اور وہ مزدوروں کا دن منایا جاتا ہے ۔ہم کیسے لوگ ہیں بدر کے دن ہم مظلوموں کا دن نہیں مناتے جس دن پوری دنیا کے محروم طبقوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ اگر تم اﷲ کے دین کا دامن تھام لو تو کفر کی بڑی سے بڑی طاقت پر غالب آ سکتے ہو اور قادر مطلق نے اپنی قدرت کاملہ سے عملاً یہ کر کے دکھایا اپنے حبیب ﷺ کو میدان کارزار میں لے آیا ۔
یہ وہ خوش نصیب تھے اﷲ کریم نے ان کی خاطر فرشتے نازل فرمائے اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ جب فرشتوں کو حکم دیا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں میری معیت تمہارے ساتھ ہے میری طاقت تمہارے ساتھ ہے فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مومنین کے قلوب پرایسے انوارت القاء کرو کہ ان کے قدم جم جائیں کبھی نہ اکھڑیں۔ رہ گئے مشرکین سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ میں کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دوں گا مسلمانوں کی ہیبت ان پر طاری کر دوں گا فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْھُمْ کُلَّ بَنَانٍ(12)اور فرمایا ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کی گردنیں اڑا دو اور وَاضْرِبُوْا مِنْھُمْ کُلَّ بَنَانٍ فرمایا میں نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کفار کے سر اس طرح سے قلم کرو کہ تلوار توگردن پر پڑے سرکٹ جائے لیکن ان کے پورپور سے ہر جوڑ سے ہر ہڈی سے درد کی ٹیسیں نکلیںوہ صرف قتل نہیں ہوئے بلکہ اس قتل میں عذاب الہٰی کی ایک کیفیت ایسی تھی تلوار تو گردن پر پڑتی تھی سر اڑ جاتا تھا لیکن جسم کے پور پور میں جسم کے ہر جگہ ہرہڈی ہرریشے میں الگ سے درد کی ٹیسیں اٹھتی تھیں ان کے ساتھ اتنا سخت عذاب کا سلوک کیوں ہوا؟اتنا شدید عذاب اتنا دردناک عذاب کیوں وارد ہوا؟
مشرکین مکہ اسلام کے خلاف ایک بہت بڑا محاذ تھے اور عرب کے اردگرد کے قبائل اس انتظار میں تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر حضور اکرم ﷺواقعی اﷲ کے رسول ہیں تب ہی مکے والوں پر فتح پا سکیں گے ورنہ مکے والے اتنے مضبوط ہیں کہ اگر معا ذاﷲ حضور ﷺ کا دعویٰ سچا نہیں ہے تو پھر حضور ﷺمارے جائیں گے حضورﷺ ان کے ہاتھوں نہیں بچ سکتے ان کے ساتھی بھی اور یہ بھی تباہ ہو جائیں گے یہ ایک تصو رتھا جزیرہ نمائے عرب میںاور باقی سارے قبائل میں وہ منتظر تھے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ اگر مکے والے غالب آتے ہیں تو قصہ ختم ہوگیااور اگر حضور ﷺمکے والوں پر غالب آ جاتے ہیں تو پھر یہ اﷲ کے رسول ہیں بغیر اﷲ کی مدد کے ایسا نہیں ہو سکتا پھر ہمیں بھی اسلام قبول کر لینا چاہیے ہمیں بھی ایمان لے آنا چاہیے کہ یہ اﷲ کے رسول ہیں ہمیں بھی مان جانا چاہیے لہٰذااﷲ بتلانا چاہتے تھے ساری کائنات کو کہ حق حق ہوتا ہے اورباطل باطل مٹ جانا باطل کا مقدر ہوتا ہے۔