رمضان المبارک میں اوصاف ِملکوتی کا حصول
تحریر: مولانا امیر محمد اکرم اعوان ؒ

وعن صیام رمضان فی السنۃ: روی عمر فی حدیث جبریل المشہور عنہ صلی اللہ علیہ وسلم ”الاسلام ان تشہد ان لا الہ الا اللہ، وان محمد ا رسول اللہ، وتقیم الصلواۃ،وتوتی الزکاۃ،وتصوم رمضان، وتحج البیت ان استطعت الیہ سبیلا“ (رواہ المسلم) وتقیم الصلٰواۃ،وتؤ تی الزکاۃ،وتصوم رمضان۔ نمازاداکرے، زکواۃ دے اور رمضان شریف کے روزے رکھے۔یہ رمض سے مشتق ہے۔رمض کہتے ہیں جلانے کو، گرم کرنے کو، کسی چیز کوآگ میں بہت زیادہ گرم کیا جائے کہ سرخ ہو جائے،آگ ہی بن جائے۔
رمضان شریف میں چونکہ نفس کو جلایا جاتا ہے،اوصاف ملکوتی اختیار کی جاتی ہیں،روح کی تقویت ہوتی ہے۔ فرشتوں جیسی اوصاف، کھانا نہیں ہے، پینا نہیں ہے،جماع نہیں کرنا، بہت سی پابندیاں ہیں جن سے گزرکرنفس کمزور پڑتا ہے اور روح کو تقویت ملتی ہے۔نفس ایک بھٹی میں چڑھا کر گلایا جاتا ہے۔تاکہ یہ کمزور ہوجائے اورروح طاقتور ہوجائے۔
رمضان المبارک میں ہر شخص جوبالغ ہو، صحت مند ہو، روزہ رکھ سکتا ہو،کوئی عذر شرعی نہ ہو تو وہ ضرور روزہ رکھے۔قرآن کریم نے رعایت بھی دی ہے کہ مسافر قضا کرلے،ایسا بیمار جس کے صحت مند ہونے کی امید نہ ہویا ایسا بوڑھا جس کے صحت مند ہونے کی امید نہ ہو۔وہ فدیہ دے لیکن پھر فرماتا ہے کہ بہتریہ ہے کہ ہو سکے تو وہ روزہ رکھے۔فدیہ دے کر تعمیل ارشاد تو ہو جائے گی لیکن جوکیفیات روزہ رکھنے سے دل میں آتی ہیں وہ تو نہیں آئیں گی۔وہ مزا تو نہیں آئے گا،وہ بات تو نہیں بنے گی۔قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے۔ وَأَن تَصُومُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ(البقرہ:184) یہ رعائتیں تو ہیں لیکن روزہ رکھو تو بہت اچھی بات ہے، بہت بڑی بات ہے۔
علمائے حق فرماتے ہیں کہ روزہ صرف پیٹ کا یا مونہہ کا نہیں ہے بلکہ تمام اعضاء کا روزہ ہے۔جس طرح کوئی شخص روزے کی حالت میں اپنی بیوی کے پاس نہیں جاسکتا۔اسی طرح زبان کا بھی روزہ ہے کہ جھوٹ نہ بولے، بدکلامی نہ کرے۔مال کا بھی روزہ ہے۔ کان کا بھی روزہ ہے کہ جھوٹ یا بدکلامی سنے نہیں۔آنکھوں کا بھی روزہ ہے کہ بے حیائی دیکھے نہیں۔تمام اعضاء وجوارح کا روزہ ہے۔کوئی بری چیز،کسی راستے سے اندر داخل نہ ہو۔سب دروازے بند کرکے بیٹھ جائے۔صرف اللہ سے رابطہ رکھا جائے۔
رمضان المبارک میں جو برکات ہیں وہ بے حد و بے شمار ہیں۔لیکن کس بنیاد پر ہیں؟ اس کی ساری اہمیت کی بنیاد کیا ہے؟خود قرآ ن کریم فرماتا ہے کہ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں اللہ کریم نے اپنے بندوں کو، اپنے ذاتی کلام سے نوازا۔کلام جو ہوتا ہے وہ متکلم کا،اس کی عظمت کا، اس کی شان کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ایک جملہ، ایک عام آدمی کہتا ہے۔ اس کی ترتیب، اس کی ساخت اور ہوتی ہے۔
اسی مفہوم کا ایک جملہ ایک ادیب کہتا ہے، اس کی ترتیب،اس کی ساخت بتاتی ہے کہ کہنے والا کوئی صاحب علم ہے۔اللہ کریم کلام فرمائیں تو اس میں کتنی کیفیت ہوگی؟ اس کے لیے جا نبین میں تعلق یا رابطے کی استعدادشرط ہے۔اللہ توکامل اور اکمل اور کامل ترین ذات ہے۔بندے میں خامیاں ہیں۔ کلام الٰہی تو آگیا۔ بندہ اس کیفیت کو کیسے پائے؟ اللہ کریم نے اس مہینے میں روزے فرض کردئیے۔روزہ بندے کو فرشتوں جیسی صفات یعنی اوصاف ملکوتی کی طرف لے جاتا ہے۔نہ کھانا،نہ پینا،کم سونا،جھوٹ نہ بولنا،غلطی نہ کرنا،غلط نہ سوچنا،غلط نہ دیکھنا، غلط نہ سننا،یہ سارے اوصاف فرشتے کے ہیں۔
بندہ مومن کو اللہ کریم فرماتا ہے کہ فجر سے لے کر غروب آفتاب تک فرشتے کی طرح ہو جا۔تجھ میں وہ اوصاف ِملکوتی پیدا ہوں تا کہ توں صرف قرآن کریم کے الفاظ نہ سنے۔تمہارے اندر اتنی طہارت، اتنی پاکیزگی آ جائے کہ وہ کیفیات بھی دل تک پہنچیں۔اسلام ایک کیفیت چاہتا ہے اور اللہ کریم نے اس ماہ مبارک میں جہاں اپنے کلام کا نزول شروع فرمایا۔
یہ بہت بڑی بات ہے کہ اللہ کریم بندے کو مخاطب کرے اوراس سے باتیں کرے،اسے سمجھائے۔یہ کھاناہے، یہ نہیں کھانا ہے،اب سونا ہے، اب جاگنا ہے یوں عبادت کرنا ہے، یہ بات کہنی ہے، یہ بات نہیں کہنی،والدین سے یہ سلوک کرنا ہے، اولا د سے اس طرح کا سلوک کرنا ہے،دشمنی کی حد یہ ہے،دوستی کی حد یہ ہے،لین دین کا طریقہ کیا ہے؟کیسے کرنا ہے؟ کیسے نہیں کرنا؟لیکن اس پر عمل تب ممکن ہو، جب یہ باتیں اوران کی کیفیت دل میں اترے۔
دماغ تک آئیں تو دماغ تو ان کے جواب بھی دیتا رہتا ہے، رد بھی کرتا رہتا ہے،دماغ کی تو اپنی سوچ ہوتی ہے، وہ کہتا ہے۔ نہیں جو میں سوچ رہا ہوں، یہ ٹھیک ہے۔جو کچھ خارجی آرہا ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔اگر کیفیت دل تک اتر ے توپھر دماغ تو حکم کا تابعدار ہے۔ دل سے حکم آئے گا تواسے مانناپڑتاہے۔
اللہ کریم نے یہ سارا کرم ماہِ رمضان المبارک میں فرمایاپھر اس ماہ مبارک کی ایک رات کو اتنی فضیلت بخشی کہ وہ ایک رات ہزار مہینے سے زیادہ کا درجہ رکھتی ہے۔جس رات میں قرآن کریم کے نزول کی ابتداء ہوئی۔ کلام باری کو وصول کرنے کے لیے نور نبوت چاہیے۔ہر انسان وصول نہیں کرسکتا۔اس کے لیے اپنا نبیﷺ مبعوث فرمایا۔
اتنا عظیم و شان نبی ﷺکہ بیک وقت ساری انسانیت کے لیے اور سارے زمانوں کے لیے، قیامت تک کے لیے، ہمیشہ ہمیشہ ہمیشہ چاردانگ عالم کو روشن رکھے۔ اس روشنی کے پیچھے کتنی طاقت ہوگی؟کتنا نور ہوگا؟کتنی قوت ہو گی؟ وہ ذات نبی کریم ﷺ کی ہے۔اس ذات نے قرآن کریم کو وصول کیا۔زمین پرکوئی دوسرا شخص کلامِ الہٰی وصول نہیں کرسکتا۔پھر آپ ﷺنے عالم انسانیت میں بانٹا اللہ ایسا کریم ہے۔اس نے اہتمام فرمایا کہ تم اوصاف ملکوتی کی کوشش کرو۔ میں تمہیں فرشتوں کی طرح پاکیزہ کردوں گا۔یہ مفاہیم تمہارے دل میں اتریں گے اور تمہارا عمل قرآن کے مطابق ہوجائے گا۔تم مجھے محبوب ہوجاؤ گے۔