قربانی ’’جانی نہیں صرف مالی‘‘

0 75

آ ج میں اپنے مضمون کا آغاز معروف انڈین فلم قربانی کے ایک گانے کے ابتدائی مصرع سے کر رہا ہوں جو کچھ اس طرح ہے :

فرشتوں کو نہیں ملتا یہ و ہ جذبہ انسانی
نصیبہ ساتھ دے جن کا وہ دیتے ہیں قربانی

واضح رہے کہ یہ گانا دو گلو کاروں انور حسین اور کشور کمار کی آواز میں گایا گیا ہے ہمیشہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ان معلومات اور فقرات سے نہ صرف کسی اشاعت کی زینت بڑھے بلکے ان قارئین کی فکری تربیت کا چنداں بندوبست ہوسکے ۔قصہ مختصر یہ کہ گزشتہ دنوں موجودہ وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے نوجوانوں کے لئے قرضہ ’’یوتھ بزنس ایگری لون پروگرام‘‘کا افتتاح کیا۔

اس موقع پر اپنے خطاب میں انہوں کہا کہ بتایا کہ مذکورہ قرضہ سکیم کے ذریعے بے روز گار نوجوانوں کو 75لاکھ تک بلا سود قرضے دیے جائیں گے ، ان میں سے 5لاکھ روپے تک قرضہ بالکل بلا سود دیا جائے گا ، دوسری صورت میں 5لاکھ سے 15لاکھ روپے تک قرضہ پر صرف 5فیصد سود وصول کیا جائے گا اور مدت واپسی 7سال تک ہو گی، اسی طرح 15لاکھ روپے سے 75لاکھ روپے تک قرضہ پر شرح سود 7فیصد ہو گی مدت واپسی 8سال تک ہو گی ۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور میں 54ہزار نوجوانوں کو 75ارب روپے قرضے دیے گئے جن میں سے 99فیصد کی واپسی ہو گئی تھی ۔

یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ مذکورہ بالا قرضے 23کروڑ نفوس کی آبادی والے ملک کے 54000بے روزگار نوجوانوں کو دیے گئے تھے جو کہ کل آبادی کا صرف0.02فیصد بن سکتے ہیں یعنی اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔اگر یہاں آج سے 34سال قبل وفاقی وزیر خزانہ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق سالانہ شرح اضافہ جو کہ انہوں نے 10لاکھ بتایا تھا تو بھی اس وقت وطن عزیز میں اس وقت ساڑھے ساتھ کروڑ کے قریب بے روز گار افراد ممکن ہو سکتے ہیں حالانکہ کے حقائق اس کے کہیں زیادہ ہیں۔

اپنے اسی خطاب میں جمہوری انداز میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ کی نشست پر براجمان ہونے والے وزیر اعظم پاکستان محمدشہباز شریف نے پاکستان کی موجودہ معاشی بدحالی کو بھی یاد رکھا اور اس پر قابو پانے کے لئے تین قسم کی قربانی کی خواہش کا اظہار کیا ۔

وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے اپنی تین تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی سیاسی کمائی قربان کرے گی، دوسرے درجے پر اشرافیہ (Elides)سے قربانی طلب کی جائے گی اور تیسرے درجے پر عوام سے قربانی مطلوب ہو گی۔ اب بات اس کالم کے عنوان کی جانب جائے گی۔

جہاں تک قربانی کا تعلق ہے تو عام معنی میں تصور کیا جاتا ہے کہ اپنی ذاتی خواہشات یا ضروریات کو دوسروں کے لئے بے لوث انداز میں وقف کر دینا یعنی قربان کر دینا ۔تاریخ کے جھروکوں کا رخ کروں کہ مثالوں سے مضمون پورا ہو جائے لیکن مقصد تشنہ رہے گا ۔ جہاں تک وزیر اعظم پاکستان کی بیان بالا قربانی کی تین قسم کی تجاویز کا تعلق ہے اپنی مثال آپ تصور کی جا سکتی ہیں ۔

یہاں چند سوال پیدا ہوتے ہیں وہ کچھ اس طرح کہ جس قربانی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اس کے لئے ہمارے نافذ العمل سرمایہ دارانہ نظام کے اندر کتنے دولت مند یا سرمایہ دار حضرات اپنے ذاتی سرمائے کو عوام یا ملک کی معیشت کے لیے قربان کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں ؟ ہمارے عظیم دین اسلام کی تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد مہاجرین کی برابر معاشی ترقی کے لئے محسن انسانیت وجہ تخلیق کائنات نے کیسی قربانی کے احکامات صادر فرمائے اور ان پر عمل در آمد بھی ہوا یہاں تک حکم دیا کہ جس انصاری کے پاس دو مکان ہیں وہ اپنے مہاجر بھائی کی بحالی کے لیے ایک مکان اسے دے دے ۔

اسی طرح یہاں تک حکم دیے دیا کہ اگر کسی انصاری کی دو بیویاں ہیں تو وہ ایک بیوی کو طلاق دے اور مہاجر بھائی کے نکاح میں دے دے تا کہ اس کا گھر بھی برابر آباد ہوسکے ۔ یہ مثال تو دین مبین کے حوالہ سے تھی آج اگر مثال دوں تو پڑوسی ملک بھارت کی دوں گا کہ آبادی ایک ارب اور چالیس کروڑ جبکہ مرکزی کابینہ کی تعداد صرف 29ممبران پر مشتمل ہے جبکہ ہمارے ہاں آبادی صرف 23کروڑ اور وفاقی کابینہ کی تعداد اس وقت 85وزرا، وزرائے مملکت ، مشیر اور معاون وزرا تک پہنچ چکی ہے۔

اب ان سب عہدیداران کی سرکاری سہولیات پر ہونے والے اخراجات کا اندازہ لگایا جائے تو ایک فکر مندکیفیت پیدا ہوتی ہے اور سوال پھر وہی کہ وزیر اعظم صاحب اپنی تجاویز پر عمل درآمد کیسے کرپائیں گے یا صرف تقریر ہی تک محدود رہیں گے ۔ مزید مثال کی بات ہو تو وہ اس طرح کہ 1969میں ویت نام میں ممتاز سوشلسٹ انقلابی رہنما’’ ہوچی منہ‘‘ کی قیادت میں اشتراکی انقلاب رونما ہواتو حکومتی ارکان نے غربت تک کو برابر تقسیم کیا تھا یعنی قربانی دی تھی ۔

مثالوں کی بات تو پہلے کی گئی کہ کتنی زندہ اور حاضر موجود ہیں لیکن کیا پاکستان مسلم لیگ ، پی ڈی ایم کی حکومت کے اندر اس قدر جذبہ سے سرشار اراکین ہیں بھی یا نہیں یا اس طرح کے جذبہ جنون سے لیس کتنے لوگ ہوں گے ؟کہ وہ اس معاشی بھنور کی گھڑی میں وطن عزیز کی معیشت کی بحالی کے لیے اپنی قیمتی ترین شے یعنی دولت یا سرمائے سے ضرورت سے زائد عوام کے لئے قربان کر پائیں گے ؟وزیر اعظم پاکستان اگر واقعی کچھ تاریخی طور پر کرنے میں مخلص ہوں تو وہ تاریخ میں ہمیشہ کے نہ صرف زندہ ہو سکتے ہیں بلکہ پاکستان میںآنے والی کئی حکومتوں کی وزارت عظمیٰ کی نشست پر براجمان رہنے کی ضمانت کا خواب بھی دیکھ سکتے ہیں ۔

یہ ایک مشاورتی جملہ تھا ایک لکھاری کی طرف سے شاید کوئی اس سے استفادہ کرنے کے متعلق کچھ فکر مند ہو جائے ۔بات ہے وزیر اعظم پاکستان کے قربانی کے جذبے اور عمل کی کہ اگر قربانی سیاسی قیادت اور اشرافیہ یا عساکر کی طرف سے دی جائے تو نتائج کیا ہو سکتے ہیں ۔تجویز پیش کی جا سکتی ہے کہ سب سے پہلے جس طرح خیرات اپنے عزیز و اقارب سے شروع کرنے کی بات کی جاتی ہے اسی طرح وزیر اعظم پاکستان کو پاکستان مسلم لیگ ن ، پی ڈی ایم کے اتحادی قائدین کے سامنے بات رکھ دینی چاہیے کہ وہ اپنی دولت ، ملکیت سے کتنی قربانی دیں کہ پاکستان کے ذمے غیر ملکی قرضوں میں کمی آسکے یا قابو پایا جا سکے ۔

اس سلسلے میں ہر سیاسی قائد کو جمہوری انداز میں آزادی سے قربانی کا حق دیا جائے کہ وہ اپنی طرف سے اس وطن کے لئے کیا اور کس طرح قربان کر سکتا ہے ؟ اگر جواب میں کچھ امید کی کرن دکھائی دے تو پھر وزیر اعظم اپنے مجوزہ منصوبے کے مطابق ملک بھر کی اشرافیہ جن میں ہزاروں لاکھوں ایکٹر زرعی اراضی کے مالکان ، دیو ہیکل تجار ، بڑے سویلین ، عسکری آفیسر ز، بیوروکریٹس کو اس کار خیر قربانی (جو صرف مالی سطح پرمطلوب ہو) کو مالی قربانی کی دعوت دی جا سکتی ہے ۔

وطن عزیز کی معاشی بدحالی کو درست کرنے میں واقعی بڑی تاریخی مشق ثابت ہو سکتی ہے ۔ مذکورہ سب کو کھلے عام دعوت برائے مالی قربانی دی جائے اور نتائج کا مشاہدہ کیا جائے کہ غیر ملکی کڑی شرائط کے چنگل میں پھنسے وطن کو کس قدر فائدہ ہو رہا ہے ، اگرصورت حال میں کچھ بہتری کے مواقع محسوس ہونے لگیں تو پہلے دو طرح کی قربانی کے نتیجہ میں حکومت ، ریاست کے لئے چند اقدامات کو کہ ایک کڑوی گولی کی تجویز ہے جو مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں کہ پاکستان جہاں عوام ریاست کی کسی ذمہ داری سے استفادہ نہیں کر سکتے وہ کچھ دیکھ سکتے ہیں جو انہوں نے گزشتہ تین نسلوں سے سوچا تک بھی نہیں، لیکن اگر یہ اقدامات مخلص طریقے سے کر لیے جائیں تو دور رس نتائج برآمد ہونے کی قوی توقع کی جا سکتی ہے ۔

وہ اس طرح کہ مجوزہ قربانی کے نتیجے میں وطن عزیز کے محاصل میں اضافہ ہو ہو گا تو غیر لکی قرضوں سے نجات کے ساتھ ساتھ سب سے پہلے پورے ملک سے ایک سروے کیا جائے کہ اس وقت کتنے ڈاکٹر ، ڈسپنسر ، پیرا میڈیکل سٹاف سرٹیفیکیٹ ، ڈگری یا ڈپلومہ رکھنے کے باوجود بے روزگار ہیں تو چاروں صوبوں کے اندر دور دراز ایسے ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی لاتعداد حد تک بغیر کسی عملے کے موجود ہے جہاں عوام بے یارو مدد گار ہیں اور بنیادی طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر وقت تقدیر کے ہاتھوں عمومی بیماریوں کے نتیجے میں موت کی آغوش میں جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ان تمام بے روزگار ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو سخت احکامات کے ذریعے ملک بھر کے خالی ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں تعینات کر کے پانچ سال عرصہ کے لئے پابند کیا جائے۔ ان تمام مذکورہ اداروں میں ملک بھر کے عوام کو بلا تمیز جنس ، نسل ، طبقہ ، مساوی علاج کی مفت سہولت فراہم کی جائے حتیٰ کے ادویات تک بھی مفت فراہم کی جائیں ۔ادویات کی پرائیویٹ تجارت پر چند قدغنیں عائد کی جائیں ، معاشرے کے بااثر طبقات کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں سے اپنا علاج کرائیں۔

وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی طرف سے مجوزہ قربانی کے رنگ کیا رنگ دکھائیں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اس کے بعد دوسرا بڑا اور فلاحی اقدام یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ چاروں صوبوں کے تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں تما سطح کی تعلیم یکساں نصاب کے ساتھ مفت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی قائم کر کے ہر پاکستانی شہری کے لئے یکساں نوعیت کے کم از کم 10مرلے کے گھر کی تعمیر کیے جائیں ان تین اقدامات کے آغاز سے پاکستان ایک فلاحی مملکت کی طرف واقعی سفر شروع کرسکتا ہے ۔جہاں تک روزگار کے مواقع کا تعلق ہے تو اگر حکومت، ریاست مخلص طریقہ سے بیان بالا تجاویز پر عمل درآمد کرنے کے لئے کم بستہ ہو جائے تو کوئی صورت نہیں کہ نہ صرف پاکستان کے اندر سرکاری طور پر روزگار کے مواقع از خود پیدا ہو ں گے بلکہ ہر وہ ممکن ہو سکتا جو کہ محسوس تک بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز کو اس مضمون کے توسط سے راحت اندوری کے وہ اشعار بھی یاد دلائے جا رہے ہیں جو انہوں نے 10اپریل 2022ء کو تحریک عدم اعتماد کی تاریخی جمہوری کامیابی کے بعد قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب کے دوران پڑھے تھے ۔ جن سے ان کے اندر سے قربانی کے جذبات کی جھلک واضح دکھائی دے رہی تھی۔ اشعار کچھ یوں تھے :

جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا

اگر وزیر اعظم پاکستان اپنی مذکورہ مجوزہ قربانی کے تین طریقوں میں چنداں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بیان بالا اشعار کی نہ صرف تشریح ہو گا بلکہ عملی شکل بھی کہلا سکتا ہے ، یہ ایڑیاں رگڑنے سے کم اقدام نہیں ہو ں گے اورمتوقع نتائج کسی خلاف فطرت چشمہ کی پیداوار سے کم نہیں ہو ں گے ۔ اس لئے وزیر اعظم پاکستان کو اس مجوزہ قربانی کے فلسفہ پر واقعی عمل کے لئے ہر ممکن سعی کرنا ہو گی۔

صرف سیاسی گراف نہیں بڑھے گا بلکہ دیگر کئی معاملات پر قابو پانا ممکن ہو جائے گا وطن عزیز کے عوام کو امن و سکون کی نیند نصیب ہو سکتی ہے ۔ ابھی راقم یہ سطور سپرد قلم کر ہی رہا تھا وزیر اعظم پاکستان کے مذکورہ قربانی کے فلسفہ کوعملی جامہ پہنانے کے حوالے سے کہ سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو وائرل ہو گئی کہ آئی ایم ایف ( بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ) کی طرف سے عائد کردہ شرائط میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ 15فیصد تک سالانہ کم کیا جا ئے دیگر کئی بڑے عہدیداران اور منصفین کی دولت سے بھی 15فیصد کٹوتی کی تجویز دی گئی ہے ۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے۔

محترم وزیر اعظم پاکستان خود بھی ایک کفایت شعاری کمیٹی تشکیل دے چکے ہیں اور مجوزہ 15فیصد دفائی بجٹ اور دیگر کی تجاویز کی حمایت بھی کر چکے ہیں۔ بطور لکھاری اب تو خواہش کے ساتھ دعا گو بھی ہوں کہ مذکورہ بالا شرائط یا تجاویز پر عمل درآمد واقعی سچ ثابت ہو جائے اور بیان بالا ویڈیو میں بیان کردہ سالانہ بچت کا اندازہ 1000ارب روپے یعنی پونے پانچ ہزار ارب ڈالر بچ سکتے ہیں ۔

مسئلہ صرف یہ کہ اب قربانی حکومت ، ریاست یا دیگر بڑوں کی قربانی خود سے نہیں مانی جائے گی بلکہ شرائط کے ساتھ قرضہ دینے والے بین الاقوامی مالی ادارے آئی ایم ایف کی طرف سے عمل کرانے کا پاکستانی عوام پر بڑا احسان مانا جا سکے گا ۔ کاش کہ مذکورہ بالا قربانی والی بات پر واقعی عمل درآمد ممکن ہو سکے اور قربانی کی عملی شکل قائم ہو جائے تو پاکستان کی معیشت دن دوگنی سے زائد ترقی کی منازل طے کر سکتی ہے اور حالیہ دیگر مسائل پر آسانی قابو پایا جا سکتا ہے ۔

صرف اور صرف آج ضرورت ہے تو وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف کے جذبہ قربانی پر عمل در آمد کی اور بس جہاں تک بیان بالا سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کا تعلق ہے تو یہ اگر حقیقت پر مبنی ہے تو جذبہ قربانی پر عمل کے لئے آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے ۔

ای میل [email protected]
فون نمبر:0301-03065430285

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)
اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.